• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 67265

    عنوان: ایک مجلس میں دی جانے والی تین طلاقیں تین ہی واقع ہوتی ہیں

    سوال: میرا نام عظمی خان ہے اور میری شادی محمد سیف ملک سے ہوئی تھی۔ جب انھوں نے مجھ سے شادی کی تو میں بیوہ تھی اور میرے دو بچے تھے، جب کہ وہ غیر شادی شدہ تھے۔ شادی کے بعد وہ اپنی فیملی کی دیکھ ریکھ نہیں کرسکے، چنانچہ ایک دن انھوں نے مجھ کو ایک ہی مجلس میں تین طلاق دے دی، ان کے دو مسلم دوستوں کی موجودگی میں، لیکن پندرہ دن کے بعد وہ واپس آئے اور میرے ساتھ دوبارہ رہنا شروع کردیا، دو سال کے بعد ان کو شادی کا ایک اچھا رشتہ ملا اس لیے انھوں نے مجھے چھوڑدیا اور اس عورت سے شادی کرلی جو کہ غیر شادی شدہ تھی، لیکن اب وہ اس عورت کے ساتھ خوش نہیں ہیں اور وہ میرے پاس واپس آنا چاہتے ہیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا شریعت ہم دونوں کو ایک ساتھ رہنے کی اجازت دیتی ہے اور کیا یہ رشتہ جائز ہے؟ براہ کرم حلال زندگی بسر کرنے میں میری مدد کریں۔

    جواب نمبر: 67265

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 839-825/N=9/1437 جمہور صحابہ ، تابعین اورتبع تابعین وغیرہم اور ائمہ اربعہ اس پرمتفق ہیں کہ ایک مجلس میں دی جانے والی تین طلاقیں تین ہی واقع ہوتی ہیں، ایسا نہیں ہے کہ صرف ایک واقع ہو؛ اس لیے اگر آپ (: عظمی خان) کے شوہر (: محمد سیف ملک) آپ کو ا یک مجلس میں یا الگ الگ مجلس میں تین طلاقیں دے چکے ہیں تو بلا شبہ آپ پر تین طلاقیں واقع ہوگئیں، آپ ان پر حرام ہوگئیں، اب حلالہ شرعی سے پہلے کسی صورت میں آپ دوبارہ ان کے نکاح میں نہیں جاسکتیں اور نہ ہی آپ کا ان کے ساتھ میاں بیوی کے طور پر رہنا جائز ودرست ہے۔ اور ایک مجلس کی تین طلاق کے متعلق غیر مقلدین کا جو موقف ہے، وہ جمہور علمائے امت کے خلاف ہے، اس پر عمل کرنا ہرگز جائز نہیں، اور تین طلاق کے پندرہ دن کے بعد وہ آپ کے پاس آئے اور آپ نے ان کے ساتھ دوبارہ رہنا شروع کردیا یہ ناجائز وحرام کام ہوا؛ لہٰذا اس سے آپ سچی پکی توبہ کریں اور آپ کے سابقہ شوہر بھی۔ قال اللّٰہ تعالی: فإن طلقھا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجاغیرہ الآیة (سورہ بقرہ آیت: ۲۳۰) ، وجاء عند أبي داود في سننہ في روایة عیاض بن عبد اللہ الفھري وغیرہ عن ابن شھاب عن سھل بن سعد قال: فطلقھا ثلاث تطلیقات عند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، فأنفذہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، وکان ما صنع عند النبي صلی اللہ علیہ وسلم سنة (سنن أبي داود، کتاب الطلاق، باب فی اللعان ص۳۰۶، ط: المکتبة الأشرفیة، دیوبند) ، وصححہ الشوکاني کما فی نیل الأوطار لہ (کتاب اللعان، باب لا یجتمع المتلاعنان أبداً ۱۲: ۵۱۴ ط دار ابن الجوزي للنشر والتوزیع) ، وقال في بدائع الصنائع (کتاب الطلاق۳: ۲۹۵ط: مکتبة زکریادیوبند) : وأما الطلقات الثلاث فحکمھا الأصلي ھو زوال الملک وزوال حل المحلیة أیضاً حتی لا یجوز لہ نکاحھا قبل التزوج بزوج آخر لقولہ عز وجل ﴿فإن طلقھا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجاً غیرہ﴾، وسواء طلقھا ثلاثا متفرقاً أو جملة واحدة الخ۔ وقال الجصاص الرازي في أحکام القرآن (۲: ۸۵ط: دار إحیاء التراث العربي، بیروت، لبنان) : …فالکتاب والسنة وإجماع السلف توجب إیقاع الثلاث معاً وإن کانت معصیة اھ، وجاء في مجلة البحوث الإسلامیة (المجلد الأول العدد الثالث سنة ۱۳۹۷الھجریة، حکم الطلاق الثلاث بلفظ واحد ص ۱۲۴- ۱۳۹) : المسألة الثانیة فیما یترتب علی إیقاع الطلاق الثلاث بلفظ واحد؛ وفیہ مذاھب: المذھب الأول أنہ یقع ثلاثا وھو مذھب جمھور العلماء من الصحابة والتابعین ومن بعدھم، وقد استدلوا لذلک بأدلة من الکتاب والسنة والآثار والإجماع والقیاس … اھ، وقال فی الفتاوی الھندیة (کتاب الطلاق، باب فی الرجعة، فصل في ما تحل بہ المطلقة ومایتصل بہ۱: ۴۷۳، ط: مکتبة زکریا دیوبند) : وإن کان الطلاق ثلاثاً فی الحرة……لم تحل لہ حتی تنکح زوجا غیرہ نکاحا صحیحا ویدخل بھا ثم یطلقھا أو یموت عنھا کذا فی الھدایة اھ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند