• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 67079

    عنوان: صرف غصہ کا اظہار مقصود تھا طلاق دینے کی کوئی نیت نہیں تھی تو کیاطلاق واقع ہوجائے گی؟

    سوال: میری شادی ۱۴/۹/۲۰۱۵ء میں ہوئی تھی، ، اللہ کے فضل سے تین مہینے شادی کا رشتہ بہت اچھی طرح سے رہا۔ بعد میں ان کی ماں کی دخل اندازی سے ایک بار بہت لڑائی ہوئی، تو اس کے والدین میری بیوی کو لے جانے کی ضد کررہے تھے، اور وہ جانے کے لیے تیار ہوگئی، تو میں نے غصہ میں آکر بولا کہ اگر جاوٴگی تو واپس نہیں آنا، مجھے یاد نہیں کہ کس نیت و ارادہ سے کہا تھا، بعد میں اس کی ماں جبر کرکے اسے لے گئی، وہ جانا نہیں چاہتی تھی، مگر جبر کرکے لے گئی۔ ایک مہینہ وہ اپنی ماں کے گھر میں رہی، بعد میں میرے ابا امی جاکر اُسے لے کر آئے، اور ہم پھر سے خوش رہنے لگے۔ ایک بار ایسے ہی لڑائی ہوئی تو میں نے اپنی بیوی سے دکھ میں کہا کہ تم جانا چاہتی ہوتو جاوٴ، یا تم جاوٴ، مگر سب صبح ہوتے ہی ہم نے صلح کرلی، ایک بار اس کے ابا آکر اُسے لے کر گئے تھے، وہ جانا نہیں چاہتی تھی مگر اس کے ابا مار کر اسے لے کر گئے تھے۔ اُس دوران میں اپنے دوستوں سے کہا کہ میں اسے چھوڑ دوں گا، بعد میں پھر میں اسے پندرہ دن میں واپس لے گیا۔ ایک بار پھر اس کے امی ابا آکر صرف دو دن سے فون نہ کرنے کی وجہ سے گھر میں جھگڑا کرکے اسے گھر سے لے جانے کی بات کی، تو میں نے کہاکہ ”مسجد سے عرضی لے کر آوٴ اور پھر لے جانا“۔ اس کے بعد وہ نہیں لے گئے۔ میرے دماغ میں طرح طرح کے وہم پیدا ہوتے رہتے ہیں، جیسے کہ میں بیوی کو پکاروں اور وہ جواب نہ دے تو نکاح ٹوٹ جائے گا وغیرہ وغیرہ۔ شاید مجھے نفسیاتی بیماری ہوگئی ہے پریشانی ہے۔ بنا کوئی عذر کے بھی تھوڑی تھوڑی بات پر میرے دماغ میں یہ بات گھر کے چکی ہے۔ میں اپنی بیوی سے بہت محبت کرتا ہوں، اللہ کے فضل سے وہ اب میری بات سمجھ رہی ہے، اور اچھی زندگی بسر کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ میں جاننا چاہتا ہوں کہ کیا اِن باتوں سے میرا رشتہ ٹوٹ جائے گا؟ ان شاء اللہ مجھے آپ کے فتوی کاانتظار رہے گا۔ اللہ کے فضل سے میں اُس لفظ کو آج تک اپنی زبان پر نہیں لایا، صرف دباوٴ کی وجہ سے یہ سوچتا رہتا ہوں۔

    جواب نمبر: 67079

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 822-822/B=11/1437

    صورت مذکورہ میں اگر صرف غصہ کا اظہار مقصود تھا طلاق دینے کی نیت نہیں کی تھی تو کوئی طلاق واقع نہ ہوئی، کوئی اور صورت ہوتو اسے وضاحت کے ساتھ لکھیں پھر اس کا جواب دیا جائے گا۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند