• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 3737

    عنوان:

    مفتی صاحب! یہ بات تو سب جانتے ہیں کہ ایک لفظ سے دی گئی طلاق کے ہوجانے پر سب سے پہلے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فتوی دیاتھا، لیکن کچھ حضرات غیر مقلدین کا یہ کہناہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنے آخری دنوں میں اپنے اس فتوی پر نادم ہوئے تھے جس سے یہ ثابت ہوتاہے کہ ان کا یہ فتوی ٹھیک نہیں تھا، ان حضرات کی دلیل یہ ہے کہ حافظ ابوبکر الاسماعیلی رحمة اللہ علیہ نے اپنی کتاب ” مسندعمر ‘ “ میں لکھتے ہیں : ” مجھے کسی چیز پر ایسی ندامت نہیں ہوئی جتنی کہ تین چیزوں پر ہوئی ، ایک یہ ہے کہ میں طلاق کوحرام نہ کر دیتا“ یہ بات حافظ ابن القیوم رحمة اللہ علیہ نے بھی اپنی کتاب ” اغاث اللفہان “ جلد ۱/ ص ۳۳۶ /پر بھی نقلی کی ہے۔ آپ مہر بانی فرما کر بتادیں کہ اس بات میں کتنی صداقت ہے؟ اور طلاق کے مسئلہ کو قرآن وحدیث کی روشنی میں واضح کریں کہ ایک مجلس اور ایک لفظ سے دی گئی تین طلاق تین طلاق ہوتی ہے یا پھر ایک ہوتی ہے؟ احادیث اردو ترجمہ میں نقل کریں تو مہر بانی ہوگی۔

    سوال:

    مفتی صاحب! یہ بات تو سب جانتے ہیں کہ ایک لفظ سے دی گئی طلاق کے ہوجانے پر سب سے پہلے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فتوی دیاتھا، لیکن کچھ حضرات غیر مقلدین کا یہ کہناہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنے آخری دنوں میں اپنے اس فتوی پر نادم ہوئے تھے جس سے یہ ثابت ہوتاہے کہ ان کا یہ فتوی ٹھیک نہیں تھا، ان حضرات کی دلیل یہ ہے کہ حافظ ابوبکر الاسماعیلی رحمة اللہ علیہ نے اپنی کتاب ” مسندعمر ‘ “ میں لکھتے ہیں : ” مجھے کسی چیز پر ایسی ندامت نہیں ہوئی جتنی کہ تین چیزوں پر ہوئی ، ایک یہ ہے کہ میں طلاق کوحرام نہ کر دیتا“ یہ بات حافظ ابن القیوم رحمة اللہ علیہ نے بھی اپنی کتاب ” اغاث اللفہان “ جلد ۱/ ص ۳۳۶ /پر بھی نقلی کی ہے۔ آپ مہر بانی فرما کر بتادیں کہ اس بات میں کتنی صداقت ہے؟ اور طلاق کے مسئلہ کو قرآن وحدیث کی روشنی میں واضح کریں کہ ایک مجلس اور ایک لفظ سے دی گئی تین طلاق تین طلاق ہوتی ہے یا پھر ایک ہوتی ہے؟ احادیث اردو ترجمہ میں نقل کریں تو مہر بانی ہوگی۔

    جواب نمبر: 3737

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 355/ ل= 335/ ل

     

    ائمہ اربعہ اور جمہور سلف و خلف کا مذہب یہی ہے کہ ایک مجلس اور ایک لفظ سے دی گئی تینوں طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں، اوران کے ذریعہ بیوی مغلظہ ہوجاتی ہے، اورحلالہ شرعیہ کے بغیر یہ عورت شوہر اول کے لیے حلال نہیں ہوسکتی، صحابہ میں سے حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت ابوہریرہ، حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت عبداللہ بن عمرو، حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت انس -رضی اللہ عنہم- سے یہی منقول ہے، نیز تابعین اور بعد کے ائمہ میں سے اکثر اہل علم کا بھی یہی قول ہے، اس کے علاوہ حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت حسن بن علی اور حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہم سے یہی منقول ہے۔ جمہور کے پاس بہت سی احادیث ہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ ایک مجلس میں دی گئی تینوں طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں، ان میں سے بعض احادیث درج ذیل ہیں: عن عائشة أن رجلاً طلق امرأتہ ثلاثاً فتزوجت فطلق فسئل النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم أتحلّ للأوّلِ؟ قال: لا حتی یذوق عسیلتہا کما ذاق الأول یعنی حضرت عائشہ -رضی اللہ عنہا- سے روایت ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں،اس عورت نے دوسرے شخص سے نکاح کرلیا، دوسرے شخص نے بھی اس کو طلاق دیدی تو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ کیا یہ عورت پہلے شخص کے لیے حلال ہوگئی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں جب تک پہلے شوہر کی طرح دوسرا شوہر بھی اس کا ذائقہ نہ چکھ لے (یعنی صحبت نہ کرلے) (بخاری شریف: ج۲ص۷۹۱، باب من اجاز طلاق الثلاث)

    (۲) امام بخاری رحمہ اللہ نے اسی باب میں حضرت عویمر عجلانی رضی اللہ عنہ کے لعان کا واقعہ نقل کیا ہے کہ لعان کے بعد انھوں نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کذبتُ علیہا یا رسول اللّٰہ إن أمسکتہا فطلقہا ثلاثاً قبل أن یأمرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر اب بھی میں اس عورت کو اپنے گھر میں رکھوں تو گویا میں نے اس پر جھوٹا بہتان باندھا، یہ کہہ کر انھوں نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم دینے سے پہلے ہی تین طلاقیں دیدیں (بخاری شریف: ج۲ ص۷۹۱، باب من اجاز طلاق الثلاث) اور کسی بھی روایت میں یہ مذکور نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر نکیر فرمائی ہو، اس سے صاف معلوم ہوا کہ وہ تینوں طلاقیں واقع ہوگئیں۔

    (۳) طبرانی نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دینے کا واقعہ نقل کیا ہے اور آخر میں یہ اضافہ نقل کیا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا یا رسول اللہ! لو طلقتھا ثلاثًا کان لي أن أراجعھا؟ قالگ إذًا بانت منک وکانت معصیة (یا رسول اللہ اگر میں اس کو تین طلاقیں دیدیتا تو کیا میرے لیے رجوع کا حق تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تب تو وہ تم سے بائنہ ہوجاتی اور یہ گناہ بھی ہوتا (مجمع الزوائد: ج۴ ص۳۳۶) جہاں تک حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اثر کا تعلق ہے تو اس سے استدلال کرنا دو وجہ سے درست نہیں: (۱) یزید بن ابی مالک نے حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کو نہیں پایا ہے اور حافظ ذہبی نے میزان الاعتدال میں لکھا ہے کہ یزید بن ابی مالک مدلس ہیں، اور جن کو انھوں نے پایا ان سے بھی مرسلاً روایت نقل کرتے ہیں۔ وأما ما روی أبویعلی عن عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ من قولہ ما ندمت علی شیء ندامتی علی ثلاث أن لا أکون حرمت الطلاق الخ فلا یصلح الاحتجاج بہ علی أن عمر قد ندم آخر حیاتہ علی إمضاء الثلاث لأمرین أحدھما أن یزید بن مالک لم یدرک عمر بن الخطار -رضی اللہ عنہ- وقد قال الحافظ الذھبي في میزان الاعتدال في یزید بن أبی مالک صاحب تدلیس وإرسال عمن لم یدرک (حکم الطلاق الثلاث بلفظ واحد بحوالہ احسن الفتاویٰ: ج۵ ص۳۲۹) (۲) اس میں ایک راوی خالد بن یزید بن ابی مالک ہے جس پر بڑے بڑے محدثین نے کلام کیا ہے: الثانی: أن خالد بن یزید بن أبي مالک وھاہ ابن معین وقال أحمد: لیس بشيء، وقال النسائي: غیر ثقة، وقال الدارقطني: ضعیف، وقال ابن عدي عن ابن أبي عصمة عن أحمد بن أبي یحیی: سمعت أحمد بن حنبل یقول: خالد بن یزید بن أبی مالک لیس بشيء، وقال ابن أبي الحواري: سمعت ابن معین یقول بالعراق: کتاب ینبغي أن یدفن، کتاب الدیانات لخالد بن یزید بن أبي مالک لم یرض أن یکذب علی أبیہ حتی کذب علی الصحابة، وفي تھذیب التھذیب: قال ابن حبان کان صدوقًا في الروایة ولکنہ کان یخطی کثیرًا․ وقال أبوداوٴد: ضعیف، وقال مرہ: متروک الحدیث، وذکرہ ابن الجارود والساجي والعقیلي في الضعفاء (حوالہٴ سابق بتمامہ) نیز حکومت سعودیہ نے اپنے ایک شاہی فرمان کے ذریعہ علماء حرمین اور ملک کے دوسرے نامور ترین علمائے کرام پر مشتمل ایک تحقیقاتی مجلس قائم کررکھی ہے جس کا فیصلہ تمام ملکی عدالتوں میں نافذ ہے، اس مجلس میں طلاق ثلاث کا مسئلہ پیش ہوا، مجلس نے اس مسئلہ سے متعلق قرآن وحدیث کے علاوہ تفسیر و حدیث کی سینالیس کتابیں کھنگالنے اور سیر حاصل بحث کے بعد بالاتفاق واضح الفاظ میں یہ فیصلہ دیا ہے کہ ایک لفظ سے دی گئی تین طلاقیں بھی تین ہی ہیں، یہ پوری بحث اور متفقہ فیصلہ حکومت سعودیہ نے ایک رسالہ میں شائع کیا ہے، غیرمقلدین اکثر مختلف فی مسائل میں اہل حرمین کے عمل کو بطور حجت پیش کیا کرتے ہیں، یہ فیصلہ بھی علمائے حرمین کا ہے اس لیے غیرمقلدین پر حجت ہے، یہ رسالہ تقریباً ۱۵۰/ صفحات پر مشتمل ہے اور احسن الفتاویٰ: ج۵ ص۲۲۳ تا ۳۷۲ پر موجود ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند