• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 3658

    عنوان:

    میری بیوی دین و دنیا سے بے خبر، نام کی مسلمان، کلمہ ، درود اور نماز سے بالکل ناواقف، دنیوی تعلیم سے بھی بے بہرہ ہے۔ میں نے اسے سکھانے کی بہت خواہش کی ، لیکن تب بھی وہ نہیں سیکھی ، تعلیم کے لیے میں نے اسے اس کے میکے بھیج دیا لیکن بھی سود۔ وہ کہتی ہے کہ میں جیسے ہوں ، مجھے قبول کرلویا طلا ق دیدو۔ میں نے اسے طلاق دینے کا فیصلہ کرلیاہے۔ وہ حمل سے ہے ، اس کا کہناہے کہ مجھے اور میرے بچے کو کو خرچہ دو ، کیا اس کی یہ بات صحیح ہے؟ میں تعلیم یافتہ اور نماز ی ہوں، میں اپنے بچہ کو اپنے ساتھ رکھنا چاہتاہوں۔ براہ کرم، میری رہ نمائی فرمائیں۔

     

     

    سوال:

    میری بیوی دین و دنیا سے بے خبر، نام کی مسلمان، کلمہ ، درود اور نماز سے بالکل ناواقف، دنیوی تعلیم سے بھی بے بہرہ ہے۔ میں نے اسے سکھانے کی بہت خواہش کی ، لیکن تب بھی وہ نہیں سیکھی ، تعلیم کے لیے میں نے اسے اس کے میکے بھیج دیا لیکن بھی سود۔ وہ کہتی ہے کہ میں جیسے ہوں ، مجھے قبول کرلویا طلا ق دیدو۔ میں نے اسے طلاق دینے کا فیصلہ کرلیاہے۔ وہ حمل سے ہے ، اس کا کہناہے کہ مجھے اور میرے بچے کو کو خرچہ دو ، کیا اس کی یہ بات صحیح ہے؟ میں تعلیم یافتہ اور نماز ی ہوں، میں اپنے بچہ کو اپنے ساتھ رکھنا چاہتاہوں۔ براہ کرم، میری رہ نمائی فرمائیں۔

    جواب نمبر: 3658

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 693/ ھ= 555/ ھ

     

    بہتر اب بھی یہی ہے کہ بیوی کے ساتھ نباہ کی صورت اختیار کرلیں، طلاق دینے کا فیصلہ کرلینا نظر ثانی کا محتاج ہے تاہم اگر طلاق دینی ہی ہو تو صرف ایک طلاق ایسے طہر میں دیں کہ جس میں جماع نہ کیا ہو اورعدت کا مکمل خرچ بیوی کو ادا کردیں، بچہ کی پرورش کا حق ایسی صورت میں آپ کو نہ ہوگا، بلکہ بچہ کی ماں کو ہی رہے گا، اور بچہ کے اخراجاتِ ضروریہ آپ کے ذمہ واجب رہیں گے، لڑکے کی عمر سات سال اور لڑکی کی گیارہ سال عمر ہونے تک بچہ کی ماں کو حق پرورش حاصل رہے گا اور آپ خرچہ بچہ کا ادا کیا کریں گے ، اور یہ یاد رکھیں کہ ایک طلاق سے زائد ہرگز نہ دیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند