• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 3634

    عنوان:

    غصہ کی حالت میں ایک وقت ایک ساتھ تین طلاق دیدیں تو کیا حکم ہوگا ؟اس سلسلہ میں درج ذیل حدیث اہم مانی جاتی ہے: ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے پہلے دو سال کے زمانے میں تین طلاق دینے سے ایک ہی طلاق مانی جاتی تھی، اس لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ  نے فرمایا کہ لوگوں نے معاملات میں جلدی کرنا شروع کردیاہے، پہلے وہ لوگ صبر سے کا م لیتے تھے، اس لیے ہم ان پر یہ نافذ کرتے ہیں اور آپ نے یہ ان پر نافذ کیا ۔ میں نے یہ انٹڑ نیٹ میں پڑھا ہے۔ بر اہ کرم، اس پر روشنی ڈالیں۔

    سوال:

    غصہ کی حالت میں ایک وقت ایک ساتھ تین طلاق دیدیں تو کیا حکم ہوگا ؟اس سلسلہ میں درج ذیل حدیث اہم مانی جاتی ہے: ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے پہلے دو سال کے زمانے میں تین طلاق دینے سے ایک ہی طلاق مانی جاتی تھی، اس لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ  نے فرمایا کہ لوگوں نے معاملات میں جلدی کرنا شروع کردیاہے، پہلے وہ لوگ صبر سے کا م لیتے تھے، اس لیے ہم ان پر یہ نافذ کرتے ہیں اور آپ نے یہ ان پر نافذ کیا ۔ میں نے یہ انٹڑ نیٹ میں پڑھا ہے۔ بر اہ کرم، اس پر روشنی ڈالیں۔

    جواب نمبر: 3634

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 619/ ل= 619/ ل

     

    جمہور صحابہ و تابعین عظام اور ائمہٴ مجتہدین کے نزدیک ایک ساتھ تین طلاق دینے سے تینوں طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں: ذہب جمھور الصحابة والتابعین ومن بعدھم من أئمة المسلمین إلی أنہ یقع الثلاث (فتح القدیر: ج۳ ص۳۳۰، پاکستان) حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں وإن کنت طلقتھا ثلاثاُ فقد حرمت علیک حتی تنکح زوجاً غیرہ وعصیت اللہ فیما أمرک من طلاق امرأتکاگر تم نے اپنی عورت کو تین طلاقیں دیدیں تو وہ تم پر حرام ہوجائے گی یہاں تک کہ وہ دوسرے شوہر سے تعلق زوجیت قائم کرے اور تم اپنی بیوی کے طلاق کے سلسلہ میں اللہ کے حکم کی نافرمانی کروگے (صحیح مسلم: ج۱ ص۴۷۶) بالکل ظاہر ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا یہ قول مجلس واحد کے تین طلاق کے سلسلے میں ہے کیونکہ اگر تین طلاقیں تین طہر میں دی جائیں تو اس کی تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت عنایت فرمائی ہے جیسا کہ طبرانی، دار قطنی وغیرہ میں /وجود ہے۔ آپ علیہ السلام کی اجازت کے باوجود حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا اسے معصیت قرار دینا امر محال ہے۔ امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے بخاری شریف میں باب قائم کیا ہے: باب من أجاز الطلاق الثلث علامہ عینی علامہ ابن حجر، علامہ کرمانی، علامہ سندھی، وغیرہ شراح بخاری اس پر متفق ہیں کہ امام بخاری کی مراد یہاں طلاق ثلث سے عام ہے کہ وہ دفعةً ہوں یا الگ الگ۔ امام بخاری نے اسی بابت میں پہلی حدیث حضرت عویمر عجلانی رضی اللہ عنہ کے طلاق اور لعان کے واقعہ کے سلسلے میں بیان کی ہے کہ انھوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنی بیوی سے لعان کرنے کے بعد اسی وقت تین طلاقیں دیدیں فطلقھا ثلاثا قبل أن یأمرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (بخاری شریف: ج۲ ص۷۹۱) انھوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ہی تین طلاقیں دیدیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی انکار نہیں فرمایا۔ امام نووی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں ولم ینکر علیہ إطلاق لفظ الثلاث حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے لفظ تین کے بولنے پر انکار نہیں فرمایا (شرح مسلم: ج۱ ص۴۸۹) بلکہ ابوداوٴد شریف کی روایت میں تو اس بات کی صراحت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تینوں طلاقوں کو نافذ فرمادیا تھا، حدیث کے الفاظ ہیں فطلقھا ثلاث تطلیقات عند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فأنفذہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (أبوداوٴد شریف: ج۱ ص۳۰۷) امام بخاری رحمہ اللہ نے دوسری حدیث ذکر کی ہے عن عائشة رضي اللہ عنھا أن رجلاً طلق أمرأتہ ثلاثاً فتزوجت فسئل النبي صلی اللہ علیہ وسلم أتحل للأول قال لا: حتی یذوق عسیلتھا کما ذاق الأول (بخاری شریف: ج۲ ص۷۹۱) جمہور کے پاس اس کے علاوہ بھی بہت سی احادیث ہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ ایک ہی مجلس میں دی گئیں تینوں طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں، جہاں تک درج ذیل حدیث کا تعلق ہے تو اس کا یہ مطلب بیان کرنا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دورِ مبارک میں اور عہد صدیقی اور خلافت فاروقی کے ابتدائی دو سالوں میں لوگ تین طلاقیں دیا کرتے تھے مگر انھیں ایک ہی قرار دیا جاتا تھا، حدیث کا یہ مطلب بیان کرنا سراسر غلط اور الفاظ حدیث پر غور کرنے کا نتیجہ ہے، خود اسی حدیث کے آخری جملے اس کی تکذیب کرتے ہیں۔ حدیث کے الفاظ ہیں قد استعجلوا الخ لوگوں نے اب جلد بازی شروع کردی ہے گویا پہلے یہ دستور نہ تھا جب کہ یہ حضرات کہتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں بھی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ابتدائی زمانہ میں یہی دستور تھا، جس سے یہ لازم آتا ہے کہ حدیث کی ابتداء او رانتہاء میں (معاذ اللہ) تضاد ہے، حدیث کا صحیح مطلب یہ ہے کہ اس میں طلاق کی تاریخ بیان کی جارہی ہے کہ عہد نبوی سے لے کر ابتدائے عہد فاروقی تک لوگ یکجا تیں طلاقیں دینے کے بجائے ایک طہر میں ایک ایک طلاق دیا کرتے تھے، خلافت فاروقی کے تیسرے سال سے لوگوں نے جلد بازی شروع کردی تو وہ تینوں طلاقیں نافذ کردی گئیں۔ حدیث میں تغیر مسئلہ نہیں بلکہ لوگوں کی عادت کے تغیر کو بتلایا گیا ہے۔ محقق نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: المراد أن المعتاد في الزمن الأول کان طلقة واحدة وصار الناس في زمن عمر رضي اللہ عنہ یوقعون الثلاث دفعة فنفذہ فعلی ھذا یکون إخبارا عن اختلاف عادة الناس لا عن تغیر حکم في مسئلة واحدة مراد یہ ہے کہ پہلے ایک طلاق کا دستور تھا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں لوگ تینوں طلاقیں بیک وقت دینے لگے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انھیں نافذ کیا تو اس طور پر یہ حدیث لوگوں کی عادتوں کے بدل جانے کی خبر ہے نہ کہ مسئلہ واحدہ میں حکم کے بدلنے کی اطلاع ہے۔ (شرح مسلم: ج۱ ص۴۷۸)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند