• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 159016

    عنوان: کیابغیر بولے ہوئے بیوی کی موجودگی میں تحریری طلاق واقع ہوگی؟

    سوال: اگر زید بولنے پر قدرت رکھتا ہو اور زبان سے کچھ کہے بغیر اپنی بِیوِی کو تحریری طلاق دے تو کیا طلاق واقع ہو جائے گی جبکہ زید کی بِیوِی سامنے ہو؟ اگر اِس طرح طلاق واقع نہیں ہوتی تو بِیوِی كے سامنے ہونےسے کیا مراد ہے . مطلب کمرے میں ہو یا گھر میں ؟

    جواب نمبر: 159016

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:639-113T/B=8/1439

    اس مسئلہ میں کتب فتاوی کے اندر کوئی صریح جزئیہ نہیں ملتا اس لیے علمائے کرام اور مفتیان عظام کے درمیان اختلاف ہوگیا ہے، کچھ مفتیان کرام نے یہ قیاس کیا ہے کہ کتابت جو عبارت کی قائم مقام ہوتی ہے جب بیوی سامنے موجود ہو اور شوہر بولنے پر قدرت رکھتا ہے تو وہاں اصل کا اعتبار ہوگا، قائم مقام کا اعتبار نہ ہوگا۔ اصل پر قدرت ہوتے ہوئے قائم مقام کا اعتبار نہ ہوگا، لہٰذا بیوی کے سامنے ہوتے ہوئے تلفظ بالطلاق کو (جو اصل ہے) کتابت بالطلاق کی صورت اختیار کی (جو قائم مقام ہے) تو اس صورت میں طلاق واقع نہ ہوئی، کیونکہ قائم مقام کی یہاں کوئی ضرورت نہیں، نیز ناطق حاضر میں کتابت کا اعتبار نہیں ہے، استاذ محترم حضرت مفتی نظام الدین صاحب اور حضرت اقدس مفتی محمود حسن صاحب گنگوہی رحمہ اللہ کی یہی رائے ہے، احقر بھی ان دونوں کے اتباع میں یہی لکھتا رہا۔

    لیکن اب ہمیں حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی کی الطرائف والظرائف میں حضرت مفتی عزیزالرحمن کا ایک فتوی نظر سے گذرا، جو حضرت تھانوی کے سوال کے جواب میں لکھا گیا ہے، وہ تحریر فرماتے ہیں عبارات کتب متعلق کتابت طلاق سے یہی ظاہراً ثابت ہوتا ہے کہ حضورِ زوجہ فی المجلس کی صورت میں بھی طلاق مکتوب صریح وکنایہ واقع ہوجاوے گی اگر غرض ایقاعِ طلاق ہو، نہ تحریر خط وغیرہ۔ انھوں نے اقرارِ دیون پر قیاس کیا ہے، کہ اقرار دین جس طرح زبانی معتبر ہے اسی طرح تحریری بھی معتبر ہے، لہٰذا راجح ومحقق یہ معلوم ہوتا ہے کہ حاضرہ فی المجلس کو بھی طلاق بالکتابة واقع ہوجاتی ہے، اور جانب احتیاط بھی یہی ہے۔ حضرت مولانا محمود حسن سلمہ ومولانا انورشاہ کی بھی یہی رائے ہے۔ فقط والسلام، راقم الحروف عزیز الرحمن عفی عنہ (خلاصہ فتوی)

    اس مسئلہ میں صریح جزئیہ نہ ملنے کی وجہ سے دونوں جماعتوں نے نظائر وقواعد پر قیاس کیا ہے اور دونوں کے قیاسات اپنی اپنی جگہ صحیح اور مضبوط ہیں لیکن چونکہ حضرت مفتی عزیز الرحمن صاحب سب سے زیادہ افقہ ہیں، ان کی تائید شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن نے اور حضرت مولانا انور شاہ نے بھی کی ہے اور خود حضرت تھانوی کی بھی یہی رائے معلوم ہوتی ہے اور احتیاط بھی اسی میں معلوم ہوتی ہے، لہٰذا احقر اپنی سابق رائے سے رجوع کرتے ہوئے حضرت مفتی عزیز الرحمن صاحب رحمہ اللہ کے فتوے کو ترجیح دیتا ہے یعنی بیوی کے سامنے ہوتے ہوئے شوہر اگر تحریری طلاق دیتا ہے تو طلاق واقع ہوجائے گی۔

    از:           حبیب الرحمن عفا اللہ عنہ، مفتی دارالافتاء دارالعلوم دیوبند         1/8/1439


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند