• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 155257

    عنوان: معاہدہ کر کے حلالہ کرنا شریعت میں جائز ہے یا نہیں؟

    سوال: عرض گزارش یہ ہے کہ ایک آدمی نے اپنی زوجہ کو بذریعہ موبائل کے تین طلاقیں دیدی ہیں، ایک آدمی کی موجودگی میں، اور جب شوہر نے کہا کہ میں تمہیں تین طلاق دیتا ہوں تو اس وقت زوجہ نے اپنا موبائل بند کردیا۔اب دریافت طلب بات یہ ہے کہ یہ عورت مغلظہ بائنہ ہوگی یا نہیں؟ اور مغلظہ ہے تو شوہر اور زوجہ کے درمیان صلح کرنے کا کیا طریقہ ہے ؟ حلالہ کے ساتھ ہیں یا حلالہ کے علاوہ کوئی اور طریقہ ہے ؟ اور اگر حلالہ ہونا لازمی ہے تو کسی شخص کے ساتھ رقم معین کرکے ایک رات کے لئے معاہدہ کر کے حلالہ کرنا شریعت میں جائز ہے یا نہیں؟ بطور مہربانی اس کی وضاحت تحریری طورپر فرما دیجئے ۔اللہ سبحانہ و تعالی آپ کو دونوں جہاں میں نفع دے گا۔

    جواب نمبر: 155257

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:41-90/sn=3/1439

    (۱) چونکہ از روئے حدیث إنما الطلاق لمن أخذ بالساق (ابن ماجہ) طلاق دینے میں شوہر مستقل ہے؛ اس لیے صورت مسئولہ میں اس آدمی کی بیوی پر تین طلاق مغلظہ واقع ہوگئی اگرچہ تین طلاق کہتے وقت بیوی نے فون کاٹ دیا ہو۔

    (۲) تین طلاق دینے سے بیوی شوہر پر حرمت غلیظہ کے ساتھ حرام ہوجاتی ہے اور وہ بعد عدت اپنے نفس کی مختار ہوجاتی ہے کہ علاوہ طلاق دینے والے شوہر کے جس سے چاہے عقد ثانی کرلے، تین طلاق دینے کے بعد میاں بیوی کے درمیان صلح وصفائی کی کوئی شکل شرعاً نہیں ہے؛ ہاں اگر مطلقہ بعد عدت کسی شخص سے نکاح کرلے اور شوہر ثانی اس کے ساتھ ازدواجی تعلق بھی قائم کرلے یعنی ہمبستری بھی کرلے پھر کسی وجہ سے وہ اس عورت کو طلاق دیدے یا بہ قضائے الٰہی شوہر وفات پاجائے تو پھر اس عورت کے لیے جائز ہے کہ عدت گزارکر پہلے شوہر سے دوبارہ نکاح کرلے، اسی کا نام ”حلالہ“ ہے، دوسرے شخص سے نکاح کرنا پھر بعد طلاق پہلے شوہر کے نکاح میں آنا یہ سب بیوی کی اپنی مرضی پر موقوف ہے، شوہر کا اس سلسلے میں کوئی اختیار نہیں ہے، نہ اس کے لیے دباوٴ دینا جائز ہے، اور ”حلالہ“ کے لیے کسی شخص کے ساتھ رقم معین کرکے (ایک دو رات کے لیے) نکاح کرنا ․․․ قطعا جائز نہیں، اس طرح کے عمل پر احادیث میں لعنت آئی ہے۔ دیکھیں مرقاة مع المشکاة، رقم: ۳۲۹۶)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند