• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 155246

    عنوان: ’’اپنے ابو کے گھر جاوٴگی تو سارے رشتے ختم، بس پھر وہیں رہنا ‘‘

    سوال: میرا سوال یہ ہے کہ اگر شوہر غصے میں یہ کہے کہ تجھے اپنے ابو کے گھر نہیں جانا، تجھے وہاں بھیجنے میں میری مرضی نہیں ہے، میں تجھے کبھی بھی پوری عمر وہاں جانے نہیں دوں گا، اگر تم کبھی بھی اپنے ابو کے گھر جاوٴگی تو سارے رشتے ختم، بس پھر وہیں رہنا ، اگر وہاں جائے گی تو میری کچھ نہیں لگتی۔ اب اگر شوہر اپنی مرضی سے بیوی کو اس کے ابو کے گھر بھیجے تو کیا طلاق ہو جائے گی؟ اگر طلاق ہوگئی اور دوبارہ نکاح کرنے کے بعد بیوی شوہر کی مرضی سے بھی کبھی اپنے ابو کے گھر جاسکتی ہے یا نہیں؟ دوبارہ جانے پر طلاق تو نہیں ہوگی؟

    جواب نمبر: 155246

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 64-117/SN=2/1439

    اگر شوہر نے اپنے جملوں: سارے رشتے ختم ․․․ الخ سے طلاق کی نیت کی تھی تو صورت مسئولہ میں شوہر کے بیوی کو اس کے باپ کے گھر لے جانے پر بیوی پر ایک طلاق بائنہ واقع ہو جائے گی اور اس سے تعلیق ختم ہو جائے گی، دوبارہ نکاح کرنے کے بعد اگر بیوی اپنے باپ کے گھر جائے گی تو اس سے کوئی طلاق واقع نہ ہوگی۔ ولو قال لہا: لانکاح بینی وبینک أو قال لم یبق بینی وبینک نکاح یقع الطلاق إذا نوی (فتاوی ہندیہ: ۱/۳۷۵، ط: دارالکتاب) وفیہا کلہا تنحل أي تبطل الیمین ببطلان التعلیق إذا وجد الشرط مرةً (درمختار مع الشامی: ۴/۲۰۴، ط: زکریا) ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند