معاشرت >> طلاق و خلع
سوال نمبر: 154029
جواب نمبر: 154029
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 1321-1351/sn=1/1439
(۱) ”طلاق“ دینے کا حق شوہر کا ایک ”بنیادی حق“ہے، حدیث میں ہے ”إنما الطلاق لمن أخذ بالساق“ (ابن ماجہ) یہ حق شوہر کا کبھی ختم نہیں ہوتا، یہاں تک کہ اگر شوہر اپنی بیوی یا کسی اور فرد کو طلاق واقع کرنے کا اختیار سپرد (تفویض) کردے پھر بھی شوہر کا اپنا یہ حق برقرار رہے گا یعنی اگر تفویض کے بعد شوہر از خود پہلے ہی طلاق دیدے تو اس کی طلاق واقع ہوجائے گی، حاصل یہ ہے کہ شوہر کے لیے حق طلاق سے کلی طور پر دستبردار ہونے کی کوئی شکل شرعاً متصور نہیں ہے۔
(۲) ”امارتِ شرعیہ“ یا کسی انجمن کو حقِ طلاق سپرد کرنے کی یہ صورت ہوسکتی ہے کہ شوہر بعد نکاح زبانی یا تحریری طور پر یہ کہہ دے (مثلاً) میری طرف سے فلاں فلاں خلاف ورزی پائی جانے کی صورت میں امارتِ شرعیہ یا فلاں انجمن کو یہ حق ہوگا کہ میری بیوی پر ایک / دو / تین طلاق واقع کردے، ایسی صورت میں شوہر کی شرط کے مطابق امارت / انجمن اس کی بیوی پر ایک طلاق واقع کردے تو شرعاً طلاق واقع ہوجائے گی؛ لیکن اس تفویض کے بعد بھی شوہر کا اپنا حق ختم نہ ہوگا۔ تفویض طلاق کی مختلف صورتیں ”الحیلة الناجزہ“ (حضرت تھانوی رحمہ اللہ) میں مذکور ہے، انہیں ملاحظہ فرمالیں۔
(۳) تینوں طلاق پڑجائے گی؛ کیونکہ طلاق کے سلسلے میں شوہر کے حق کو نہ ختم کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی کم کیا جاسکتا ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند