• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 151566

    عنوان: عورتوں کو طلاق دینے کا کیوں پاور (حق) نہیں ؟

    سوال: شریعت میں عورتوں کو کچھ اسپیشل کیس میں بھی طلاق دینے کا حق ہے یا نہیں؟ اگر کسی عورت کا نکاح ایسے شخص سے ہو جائے جو کہ لالچی ہے اور اسے پیسوں کا لالچ ہو، اور وہ یہ کہے کہ مجھے ایک کروڑ روپئے چاہئے جب میں تمہیں طلاق دوں گا، تو ایسے میں عورت کو طلاق دینے کا حق ہے یا نہیں؟ اگر نہیں ہے تو کیوں نہیں ہے؟ (حالانکہ عورت کو خلع لینے کا حق ہے پر وہ شوہر جو کہ لالچی ہے طلاق کا لفظ اس وقت تک نہیں کہے گا جب تک اسے پیسے نہیں مل جاتے، تب تک اپنے منہ سے تین بار طلاق نہیں بولے گا، اور جب تک وہ طلاق نہیں دے گا اس لڑکی کا نکاح کہیں اور نہیں کیا جاسکتا) کیا ایسی صورت میں لڑکی خود سے اپنے شوہر کو طلاق دے سکتی ہے؟

    جواب نمبر: 151566

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 1258-1193/L=9/1438

     شریعت کا منشا یہ ہے کہ اچھی طرح ازدواجی زندگی گذاری جائے ؛لیکن اگر کبھی حالات نامساعد ہو جائیں اور زوجین کا اللہ رب العزت کے قائم کردہ حدود پر باقی رہنا دشوار ہوجائے اور آئندہ نباہ کی کوئی صورت نہ بن سکے تو شوہر کو یہ حکم ہے کہ طلاق دے کر اچھے انداز میں بیوی کو اپنی زوجیت سے نکال دے تاکہ عورت آزاد ہوکر جہاں چاہے شادی کرسکے،شوہر کا طلاق دینے کے لیے لمبی رقم کا مطالبہ کرنا کسی بھی طرح درست نہیں ہے،شوہر کو طلاق کا اختیار اس لیے دیا تاکہ طلاق کم سے کم واقع ہو کیونکہ عورت جلدباز ہوتی ہے اور بسا اوقات بغیر سوچے کوئی فیصلہ کرلیتی ہے اور بعد میں اسے افسوس ہوتا ہے اس کے بالمقابل مرد نتیجے پر بھی غور کرتا ہے،اسی طرح خلع میں بھی عورت آزاد نہیں ہے بلکہ خلع کے صحیح ہونے کے لیے بھی شوہر کی رضامندی ضروری ہے ؛البتہ کبھی شوہر واقعی ظلم وزیادتی پر اتر آتا ہے نہ تو بیوی کو رکھ کر نان ونفقہ برداشت کرتاہے اور نہ ہی اسے آزاد کرتا ہے ایسی صورت میں حکم یہ ہے کہ بیوی اپنا معاملہ مقامی شرعی پنچایت میں لے جائے اگر شرعی پنجایت کے حضرات اپنے طور تحقیق کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچ جاتے ہیں کہ واقعی شوہر متعنّت ہے تو ان کو نکاح کے فسخ کرنے کا اختیار ہوگا،لہذا صورت مسئولہ میں اگر شوہر طلاق کے لیے ایک خطیر رقم کا مطالبہ کرتا ہواور بیوی کو رکھ کر اس کے نان ونفقہ کا انتظام نہ کرتا ہو تو بیوی کو چاہیے کہ اپنے مسئلے کو مقامی شرعی پنچایت میں لے جاکر حل کرائے۔ 


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند