• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 151427

    عنوان: خلع كے مطالبے پر طلاق دینا كیا خلع ہے؟

    سوال: ایک لڑکی نے اپنے شوہر سے خلع لے لیا، لڑکے نے تمام بستی والوں کے سامنے لڑکی سے کہا میں تم کو اپنے نکاح سے آزاد کرتا ہوں، تین طلاق لڑکے نے اپنے زبان سے نہیں نکالا، کیا لڑکی اس کے نکاح میں ہے یا اس کے نکاح سے نکل گئی ۔ براہ کرم، جواب دیں۔

    جواب نمبر: 151427

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 945-920/N=9/1438

     

    اگر بیوی نے شوہر سے طلاق کا مطالبہ کیا اور شوہر نے جواب میں کہا: میں تم کو اپنے نکاح سے آزاد کرتا ہوں تو شریعت کی اصطلاح میں یہ خلع نہیں ہے؛ بلکہ شوہر نے عورت کو اس کے مطالبہ پر بلا عوض طلاق دیدی اور چو ں کہ آزاد کا لفظ اردو محاورے میں طلاق کے معنی میں صریح ہے (امداد الفتاوی ۲: ۴۲۵- ۴۲۷، سوال: ۵۰۸، ۵۱۰، مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند،امداد الاحکام ۲:۴۴۴،۴۴۵،۴۴۷،مطبوعہ:مکتبہ دار العلوم کراچی، فتاوی محمودیہ جدید ڈابھیل ۱۲: ۳۵۲،سوال: ۶۰۹۶، وغیرہ) ؛ اس لیے اس صورت میں عورت پر صرف ایک طلاق رجعی واقع ہوئی بہ شرطے کہ شوہر نے شادی کے بعد عورت کے ساتھ صحبت کی ہو یا دونوں کے درمیان خلوت صحیحہ پائی گئی ہو۔ اور طلاق رجعی کا حکم یہ ہے کہ شوہر عدت میں عورت سے رجعت کرسکتا ہے اور اگر شوہ نے عدت تک رجعت نہیں کی تو عورت عدت کے بعد مکمل طور پر شوہر کے نکاح سے نکل جائے گی؛ البتہ اگر یہ پہلی طلاق ہے تو آئندہ باہمی رضامندی سے نکاح جائز ہوگا، حلالہ کی ضرورت نہ ہوگی۔

    اور اگر صورت مسئولہ میں خلع کا مطلب: محض مطالبہ طلاق نہ ہو تو خلع میں میاں بیوی کے درمیان زبانی یا تحریری جو کچھ کاروائی ہوئی، اُس کی مکمل تفصیل کے ساتھ سوال کیا جائے۔

    وإذا طلق الرجل امرأتہ تطلیقة رجعیة أو تطلیقتین فلہ أن یراجعھا فی العدة رضیت بذلک أو لم ترض لقولہ تعالی: فأمسکوھن بمعروف من غیر فصل الخ (الھدایة ، کتاب الطلاق باب الرجعة ۲: ۳۷۳، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند