• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 150937

    عنوان: وقوع طلاق کے لیے گھر والوں کا ماننا ضروری نہیں؟

    سوال: میری شادی کو ہوئے ۴/ سال ہوگئے اور ہم دونوں میں کوئی رشتہ نہیں بنا، میں بہت مرتبہ اپنی بیوی کے پاس گیا لیکن ہمیشہ اس کا کوئی نہ کوئی بہانہ ہوتا کبھی پیٹ میں درد کبھی بہت تکلیف ہورہی کبھی میرے دن شروع ہیں۔ کافی سب کے سمجھانے کے بعد بھی ہم میں کوئی رشتہ نہیں ہوا۔ میں اس سے بہت پریشان ہوچکا ہوں اور میں نے اس کو طلاق کی نیت سے کہا تیرا میرا کوئی رشتہ نہیں ہے، اور کئی بار بول چکا ہوں میں نے طلاق دے دی ہے۔ اس بات کو ۶/ مہینے کے اوپر ہو گئے ہیں اور اس کے گھر والے طلاق مانتے نہیں ہیں، وہ کہتے ہیں جس نے شادی کروائی تھی اس کو کہو، جس نے بہو بنا کر لے گیا تھا اس کو بول یعنی میرے والد صاحب کو۔ اور سب لوگ مجھ پر زبردستی کر رہے ہیں تجھے اس کو رکھنا ہی پڑے گا جب کہ مجھے اب اس کو اپنے نکاح میں رکھنا ہی نہیں ہے۔ میں اب اس کو تیسری طلاق بھی دینا چاہتا ہوں لیکن مجھ پر زبردستی کی جارہی ہے کہ میں اس کو اپنے پاس رکھوں، کوئی بھی طلاق ہوئے ماننے کو تیار نہیں ہیں۔ اس بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟ برائے مہربانی جواب دیں۔ جزاک اللہ

    جواب نمبر: 150937

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 829-987/B=9/1438

    بیوی کی طلاق کا وقوع اس کے گھر والوں کے ماننے پر موقوف نہیں ہے، جوں ہی شوہر طلاق دے گا اس کی بیوی پر طلاق پڑجائے گی، جب طلاق کی نیت سے شوہر نے یہ جملہ کہہ دیا کہ ”تیرا میرا کوئی رشتہ نہیں ہے“ تو اس سے ایک طلاق بائن واقع ہوگئی۔ بعد میں اگر کئی بار آپ نے اسی پہلی طلاق کی خبر دیتے ہوئے یہ کہا ہے میں نے طلاق دیدی ہے، تو اس سے مزید کوئی طلاق واقع نہ ہوئی۔ طلاق بائن کے بعد بیوی کو رکھنا جائز نہیں، اس کے لیے زبردستی کرنا بھی جائز نہیں یہ جہالت کی بات ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند