معاشرت >> طلاق و خلع
سوال نمبر: 149087
جواب نمبر: 149087
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 446-423/N=6/1438
ہمارے عرف میں ”تو فارغ ہے“ کا جملہ سب وشتم کے لیے استعمال نہیں ہوتا، صرف جواب کا احتمال رکھتا ہے؛ اس لیے قرینہ کی صورت میں اس جملہ سے بلا نیت طلاق بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ (احسن الفتاوی ۴: ۱۸۸، مطبوعہ: ایچ، ایم سعید، کراچی، پاکستان) پس جب آپ کے شوہر نے لڑائی جھگڑے کے دوران آپ کے والد صاحب کو فون کرکے کہا کہ ”آپ کی بیٹی جھوٹی ہے، میری طرف سے فارغ ہے، اسے آکے لے جائیں“ تو آپ پر ایک طلاق بائن واقع ہوگئی، اگرچہ وہ طلاق کی نیت کا انکار کریں؛ کیوں کہ صورت مسئولہ میں غصہ گرمی کی حالت اور آخر کا جملہ: اسے آکے لے جائیں، دونوں طلاق پر قرینہ ہیں۔ اور اگر یہ بات صحیح ہے کہ آپ کے شوہر اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ غصہ کی حالت میں آپ سے ”تم فارغ ہو“ کے الفاظ کہہ چکے ہیں تو انھوں نے پہلی مرتبہ جب کہا تھا تبھی آپ پر ایک طلاق بائن واقع ہوگئی تھی، اس کے بعد آپ دونوں کا ساتھ رہنا جائز نہ تھا، اور اس کے بعد انھوں نے جتنی مرتبہ کہا، اسے خبر پر محمول کیا جاسکتا ہے؛ اس لیے اگر آپ ان کے ساتھ رہنا چاہتی ہیں تو نیا نکاح کرکے رہ سکتی ہیں؛ البتہ آپ کے شوہر کو آئندہ صرف مابقیہ طلاق، یعنی: دو طلاق کا حق ہوگا، مکمل تین کا نہیں۔ لا یلحق البائن البائن إذا أمکن جعلہ إخبارًا عن الأول الخ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الطلاق، باب الکنایات، ۴: ۵۴۲-۵۴۴، ط: مکتبہ زکریا دیوبند)، ولم یشترطوا أن ینوي بہ الطلاق الأول، فعلم أن قولہم: ”إذا أمکن الخ“ احتراز عما إذا لم یکن جعلہ خبرًا کما في أبنتک بأخری، لا عما إذا نوی بہ طلاقًا آخر فتدبر (رد المحتار، ۴: ۵۴۵)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند