• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 148952

    عنوان: غلطی سے میسیج کرنے سے کیا طلاق واقع ہوجائے گی؟

    سوال: آپ کی ویب سائٹ پر مسئلہ نمبر Fatwa ID: 219-292/N=3/1437-U کے بارے میں کیا یہ اشتباہ ہوتا ہے کہ موبائل میں میسیج لکھنے کا مقصد ارسال ہوتا ہے ، اور میسج میں تین طلاق لکھنے کے بعد ڈیلیٹ کرنے کے ارادے سے بٹن دبانے کی صورت میں غلطی سے سینڈ کا بٹن دب جائے تو دیانتا طلاق نہیں ہونی چاہیے ؟ کیوں کہ یہ اذا اتاک کتابی ھذا فانت طالق کے مشابہ ہے ۔ اس بارے میں آپ حضرات کی کیا رائے ہے ؟

    جواب نمبر: 148952

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 433-637/N=8/1438

    جس طرح موبائل کا میسیج عام طور پر دوسرے کو ارسال کرنے کے مقصد سے لکھا جاتا ہے؛ اسی طرح دوسرے کے نام لکھا جانے والا خط یا تحریر بھی دوسرے کو ارسال کرنے کے مقصد سے ہی لکھی جاتی ہے ، محض مشق وتمرین کے مقصد سے نہیں؛ اس لیے جس طرح طلاق بالکتابة میں وقوع طلاق کو طلاق نامہ پہنچنے پر معلق نہ کرنے کی صورت میں طلاق نامہ لکھتے ہی طلاق واقع ہوجاتی ہے ؛ اسی طرح بہ ذریعہ میسیج طلاق دینے کی صورت میں بھی محض میسیج لکھنے سے طلاق واقع ہوجاتی ہے خواہ میسیج بیوی کوارسال کیا جائے یا لکھنے کے بعد ڈلیٹ کردیا جائے ؛ البتہ اگر کسی نے میسیج میں یہ لکھا کہ جب یہ میسیج تمھارے پاس پہنچے تو تمھیں طلاق تو اس صورت میں طلاق اس وقت واقع ہوگی جب میسیج بیوی کے پاس پہنچ جائے ۔ نیز تعلیق طلاق بہ حکم یمین ہوتی ہے اور ایمان میں الفاظ کا اعتبار ہوتا ہے، اغراض کا نہیں، یعنی: اغراض ومقاصد کو بنیاد بناکر الفاظ یمین کو مقید یا خاص نہیں کیا جاسکتا۔ پس فتوی (۲۱۹/ن، ۲۹۲/ن، ۱۴۳۷ھ ) میں محض غرض ومقصد کی بنا پر تعلیق کے الفاظ کو مقید کرنا اور اسے إذا أتاک کتابي ھذا فأنت طالق کے مشابہ قرار دینا صحیح نہیں ۔

    الیمین… شرعاً عبارة عن عقد قوي بہ عزم الحالف علی الفعل أو الترک فدخل التعلیق فإنہ یمین شرعاً الخ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الأیمان، ۵: ۴۷۱، ۴۷۲، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، الأیمان مبنیة علی الألفاظ لا علی الأغراض (المصدر السابق، ص ۵۲۸)، فقد ظھر لک بھذا التقریر الساطع المنیر معنی قولھم: ”الأیمان مبنیة علی العرف“،وقولھم: ”إنھا مبنیة علی الألفاظ لا علی الأغراض“ وصحہ الفروع التي فرعوھا وظھر لک أن کلا من ھاتین القاعدتین مقیدة بالأخری؛فقولھم:”إنھا مبنیة علی العرف“ معناہ: العرف المستفاد من اللفظ لا الخارج عن اللفظ اللازم لہ وقولھم :”إنھا مبنیة علی الألفاظ لا علی الأغراض“ دل علی تقیید القاعدة الأولی بما ذکرنا وھي دلت علی تقیید القاعدة الثانیة بالألفاظ العرفیة ودلت أیضاً علی أنہ حیث تعارض الوضع الأصلي والوضع العرفي ترجح الوضع العرفي وإلا لم یصح قولھم :”الأیمان مبنیة علی العرف“، وظھر أیضاً أن المراد بالعرف ما یشمل العرف الفعلي والعرف القولي وأن کلا منھما تترک بہ الحقیقة اللغویة کما مر تقریرہ وأن المراد ببناء الأیمان علی العرف اعتبار المعنی العرفي الذی استعمل فیہ اللفظ وأن المراد بالغرض ما قصدہ المتکلم من کلامہ سواء کان ھو المعنی العرفي الذی استعمل فیہ اللفظ أو کان معنی عرفیاً خارجاً عن اللفظ زائداً علیہ وأنہ بالمعنی الأول یصلح مخصصا وبالمعنی الثاني لا یعتبر وھو المعنی بقولھم :”لا علی الأغراض“ وأن معنی قول الجامع:”وبالعرف یخص ولا یزاد“ أن اللفظ إن کان معناہ الأصلی عاماً واستعمل فی العرف خاصاً کالدابة مثلاً تخصص المعنی الأصلی بہ وکان المعتبر ھو العرف ولا یزاد بہ علی اللفظ أي : لو کان الغرض العرفي خارجاً عن اللفظ وإنما دل علیہ الکلام لا یعتبر لأن العبرة للألفاظ العرفیة أو الأصلیة حیث لا عرف للأغراض العرفیة الخارجیة (رسائل ابن عابدین، رسالة:رفع الانتقاض ودفع الاعتراض علی قولھم: الأیمان مبنیة علی الألفاظ لا علی الأغراض، ۱: ۳۰۴، ط: مکتبة زکریا دیوبند) ، أي :أنھا تبنی علی ما تلفظ بہ الحالف من الفعل المحلوف علیہ المناقض للغرض فإذا وجد الفعل المذکور ثبت الحنث المطلق وإلا فلا ولا تبنی علی الغرض فلا یقال: إن المعتبر غرض الحالف فإن فات الغرض حنث سواء وجد الفعل أو لا وإن وجد الغرض لایحنث سواء فات الفعل أو لا؛ لأن المعتبر اللفظ والغرض لا یعتبر إلا إذا وجد معہ اللفظ اھ (المصدر السابق، ص۲۹۷)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند