• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 147409

    عنوان: ”آج سے تمھارا میرا کوئی تعلق نہیں“ تم اپنے بھائیوں کو بلواوٴ اور چلی جاوٴ“ كہنے سے طلاق ہوگی یا نہیں؟

    سوال: جناب میرے شوہر غصے کے بہت تیز ہیں اور شادی کے فورا بعد سے ہی بے بنیاد شک اور ہر وقت طعن تشنے جاری رہتے ہیں ، عجیب غیر مہذب بدکار طریقے سے سیکس کرتے رہتے ہیں ، تقریبا روزانہ ہی ساری ساری رات مجھے سونے نہیں دیتے ۔ مسلسل اندرونی زدوکوب ، پریگنینسی اور انکی الٹی سیدھی بری حرکتوں کی وجہ سے میری طبعیت بھی خراب سے خراب ہوتی چلی گئی ڈاکٹر نے مجھے بیڈ ریسٹ کو کہہ دیا۔میرے میکے جانے پر بھی عجیب حال ہوتا ہے کہ خوشی سے چھوڑ کر آتے ہیں لیکن فورا ہی انتہائی غصے کے میسج کرنے لگتے ہیں۔ شک اتنا کہ میرے موبائل کی سم اور بیٹری مجھ سے چھین کر اپنے پاس رکھ لی۔یہ میرے ساتھ کئی دفعہ جان لیوا سلوک بھی کر چکے ہیں مثلا کبھی یہ میرے دونوں ہاتھ پکڑ کر منہ تک بند کر دیتے ہیں کہ دم ہی گھٹ جائے ، پھر چیک کر کے کہتے ہیں کہ \"سانس تو آرہی ہے \" ، یہ صرف ایک مثال پیش کی ورنہ اسطرح کے جان لیوا سلوک انکا معمول ہیں اور میں انکی وحشیانہ درندگی کا نشانہ۔ گرمی سردی ہر موسم میں انکو پسینے آتے رہتے ہیں۔ نفسیاتی طور پر کسی طرح بھی ایک صحتمند انسان نہیں لگتے ۔ واضح رہے کہ یہ ان کی دوسری شادی ہے ، پہلی بیوی سے دو بچیاں بھی ہیں وہ بھی ایسی ہی پریشانیوں کی وجہ سے پریگنینسی کی حالت میں ہی چپل چھوڑ کر گھر سے بھاگی تھی ، میری یہ دوسری شادی ہے ، پہلی میں شوہر کے انتہائی پریشان کرنیکی وجہ سے خلع لی تھی۔ایک دن ( جمعرات ۰۱ ستمبر ۲۰۱۶ کو ) اسی طرح میری طبعیت بہت خراب تھی باہر سب سسرال آپس میں ہنس بول رہے تھے لیکن مجھے سانس تک لینے میں مشکل ہو رہی تھی لگ رہا تھا اب نہیں بچوں گی صرف رو رو کر دعا ہی کر رہی تھی کہ اللہ کی مدد ہوئی میری بڑی بہن اتفاق سے ملنے آئیں ،میری حالت دیکھ کر پریشان ہو گئیں اس وقت وہیں کی ڈاکٹر (جن سے میرے شوہر میرا چیک اپ کرواتے ہیں) کے یہاں چیک اپ کروایا تو ڈاکٹر نے مجھ سے کہا کہ تم وہاں سے بھاگ کیوں نہیں جاتیں؟ اپنی جان بچاؤ! ڈاکٹر نے میری بہن کو مجھ پر ہونے والے ظلم اور بدکاری کا بتا یا میری کنڈیشن بہت خراب تھی۔ میری بہن مجھے میکے لے آئیں۔ان کی امی نے ایک دفعہ فون کر کے کہا کہ جمعہ تک آجانا میں نے کہا جی ضرور آپ ان کو بھیج دیجئے گا ، لیکن یہ مجھے لینے نہیں آئے اور میرے بڑے بھائی کو غصے میں فون کیا اور کہا کہ میری بیوی کو زبردستی کیوں روکا ہے ، میں اس کے ساتھ ایسے ہی کروں گا اور اسکو چھوڑوں گا بھی نہیں ۔ میرے بڑے بھائی نے ان کو ان کے بڑے بھائی اور بہنوئی کے ہمراہ گھر پر بلوایا وہاں بھی یہ صلح کے بجائے لڑنے کے انداز میں ہی رہے ، ہاتھا پائی ہوتے ہوتے بچی ، ان کو ان کے اپنے بڑے بھائی نے مارا ، سمجھایا اور سخت سرزنش کی ، موبائل سم واپس دینے کا کہا ، آئندہ بہتر سلوک اور مہینے میں چند دفعہ ہنسی خوشی میکے لانے کے وعدے پر مجھے دوبارہ اتوار مؤرخہ ۰۹ اکتوبر ۲۰۱۶ کو رخصت کیا۔تھوڑے ہی دن صحیح رہنے کے بعد پہلے سے بھی بدتر حال ہوگیا مجھ سے کہتے ہیں کہ میں تمہیں ایسا کردوں گا کہ تم کسی سے شادی کے قابل نہیں رہوگی کبھی الزام لگاتے ہیں کہ یہ پریگنینسی (حمل )پہلے سے ہے ، مجھ سے بدکاری کرنا چاہتے ہیں ، ساری ساری رات جگاتے ہیں۔ ( واضح رہے کہ ۰۷ مئی ۲۰۱۶ کو میری شادی ہوئی تھی اور ڈاکٹر نے جون کی پریگنینسی(حمل) بتائی ہے یعنی ایک ماہ بعدکی)میں اپنی تربیت اور شرم کی وجہ سے میں کسی سے کچھ کہ بھی نہیں پاتی اور دوسری شادی کی وجہ سے بھی نبھانے کی انتہائی کوشش کرتی رہی ہوں، لیکن معاملہ سنگین سے سنگین ہوتا جا رہا ہے اب تو میری جان کو خطرہ ہے انہوں نے کہا ہے کہ یہ مجھے ایسی سزاء دیتے رہیں گے کہ میں کسی کو بتا بھی نہیں پاؤں گی اور کسی اور سے شادی کے قابل بھی نہیں رہوں گی (یعنی ایسی اندرونی درندگی کریں گے جو میں کسی کو بتا بھی نا پاؤں گی)۔ ایک دن ( جمعرات مؤرخہ ۲۴ نومبر ۲۰۱۶ کو ) میکے میں چھوڑ ا تو حسب معمول غصے والے اور علیحدگی کے میسج کرنے لگے ، میں اس کے باوجود ہنسی خوشی ان کے ساتھ گئی تو گھر پہنچ کر پھر غصہ کرنے لگے کہ تمہارا موڈ کیوں صحیح نہیں ہے حالانکہ میرا موڈ بالکل صحیح تھا جس کے ان کے گھر والے بھی گواہ ہیں اور ان کے گھر والوں نے خود کہا کہ اسکا موڈ تو بہت اچھا تھا۔اس رات ( جمعرات مؤرخہ ۲۴ نومبر ۲۰۱۶ کو ) پھر یہ مجھے جگاتے رہے اپنی الٹی سیدھی حرکتوں میں لگے رہے یعنی بات کوئی نہیں ہو رہی تھی حرکتیں ہی چل رہی تھیں ، میں نے حاجت کیلئے جانا چاہا تو جانے ہی نہیں دے رہے تھے آخر جب برداشت سے باہر ہونے پر میں اٹھی تو انہوں نے ۲ دفعہ کہا کہ \" آج سے تمہارے اور میرے راستے الگ \" ، پھر ایک دفعہ کہا کہ \" تم الگ میں الگ \"۔ یہاں یہ بات ختم ہو گئی۔ صبح کو جب میں نے یاد دلایا کہ آپکو یاد ہے آپ نے رات میں کیا کہا تھا تو انہوں نے کہا کہ \" ہاں مجھے اچھی طرح یاد ہے اور میں نے جو کہا تھا اسے فیس ( سامنا ) کرنا بھی جانتا ہوں ، کاغذات تیار ہیں تم جب چاہو میں سائن کر دونگا۔ \"۔ایک بات یہ مجھ سے اکثر کہتے رہتے ہیں کہ تم اپنے بھائیوں کو بلواؤ اور چلی جاؤ۔ اس واقع کے تین دن بعد اتوار مؤرخہ ۲۷ نومبر ۲۰۱۶ کو جب میرے بھائی مجھے میکے کی دعوت سے واپس سسرال چھوڑ کر چلے گئے تو یہ غصے میں الٹا سیدھا بولتے رہے یہ بھی کہا کہ اگر تم چاہتی ہو تو میں تمہیں چھوڑ دیتا ہوں، اسی طرح کہا کہ صبح میں تمہیں چھوڑ کر آجاؤنگا۔پھر مجھ سے ۳ دفعہ کہا کہ \"اب تمہارا میرا کوئی تعلق نہیں ، تم اپنے بھائیوں کو بلاؤ کہ آکر تمہیں لے جائیں\"اور تھوڑی ہی دیر بعد اپنے ہی گھر والوں کی سرزنش پر یہ کہنے لگے کہ \"میں نے یہ مذاق میں کہا تھا طلاق کی کوئی نیت نہیں تھی\"۔اس کے بعد میں نے اپنے بھائی کو فون کیا اور اتوار مؤرخہ ۲۷ نومبر ۲۰۱۶ کی رات اپنے بھائیوں کے ہمراہ میکے آگء۔ان سارے حالات اور واقعات کی روشنی میں آپ جناب سے یہ پوچھنا ہے کہ: ۱۔ میرے شوہر نے جو الفاظ استعمال کئے ، کیا ان سے طلاق واقع ہو گئی؟ اگر ہاں تو : ۲۔ کتنی طلاق واقع ہوئیں، ۳۔ کونسی طلاق واقع ہوئی اور اسکا کیا حکم یہ ۴۔ اس ساری صورتحال میں شریعت مجھے کیا کہتی ہے اور میرے پاس اپنی حفاظت کے کیا حقوق ہیں؟ ۵۔ کیا ان کو یہ اختیار ہے کہ میری مرضی کے خلاف مجھے زبردستی لے جائیں جبکہ میری جان اور صحت کو ہر طرح کے خطرات ہیں؟ ۶۔ وہاں سے آتے ہوئے میں ان سے اپنا زیور ، اور بری کا زیور استعمال کے کپڑے اور کمبل وغیرہ سسرال والوں کو دکھا کر لے آئی تھی ، انکی والدہ نے جہیز کا سامان فرنیچر وغیرہ کا پوچھا کہ ابھی لے جائیں گے یا بعد میں ؟ حق مہر کی ادائیگی نکاح کے فورا بعد طے تھی لیکن ادا نہیں کیا گیا تھا وہ میرے بھائی نے اسی وقت میری طرف سے مطالبہ کیا تو انہوں نے ادا کیا۔ آپ سے پوچھنا ہے کہ ان چیزوں کی کیا شرعی حیثیت ہے اور ان پر کسکا کیا حق ہے ؟ ۷۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے میرے والدین بالخصوص میری جان کے خطرے ، اور ہر طرح کی کوشش کے باوجود بہتری کی کسی امید سے مکمل مایوس ہو چکے ہیں اور اس رشتے کو جاری رکھنے کے حق میں نہیں ہیں ، برائے مہربانی اس سلسلے میں بھی رہنمائی فرمائیں۔ برائے مہربانی جلد از جلد مرحمت فرمادیں تاکہ میں اس کی روشنی میں آئندہ کا لائحہ عمل طے کر سکوں اور میرے لئیے بہت دعا بھی کیجئے گا۔ اللہ آپکو بہت ہی جزائے خیر عطا فرمائیں۔ آمین۔

    جواب نمبر: 147409

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 394-850/M=7/1438

    (۱تا ۹) سوال میں آپ نے اپنے شوہر کے احوال کی جو تفصیل ذکر کی ہے اگر وہ درست اور مطابق واقعہ ہے، نقل میں مبالغہ آرائی اور کذب بیانی نہیں ہے تو آپ کے شوہر کی حرکتیں یقینا افسوس ناک ہیں، آپ کے شوہر نے جو الفاظ آپ کو بولے ہیں مثلاً یہ کہ: ”آج سے تمھارا میرا کوئی تعلق نہیں“ تم اپنے بھائیوں کو بلواوٴ اور چلی جاوٴ“ یہ الفاظ کنائی ہیں اور کنائی الفاظ طلاق کی نیت سے بولے جائیں تب طلاق ہوتی ہے ورنہ نہیں، لہٰذا شوہر سے ان الفاظ کے متعلق وضاحت معلوم کرلی جائے کہ کس نیت سے بولے ہیں؟ اگر شوہر نے صریح الفاظ میں طلاق نہ دی ہو اور کنائی الفاظ کے متعلق بھی بحلف کہتا ہو کہ ہماری نیت طلاق دینے کی ہرگز نہیں تھی تو آئندہ زوجین کے درمیان موافقت پیدا کرنے کی سعی کی جائے اگر افہام وتفہیم کی ساری سعی وکوشش ناکام ہوجائے اور شوہر کا ظلم وجور برقرار رہے اور بیوی شوہر کے پاس رہنے میں اپنی جان وصحت کا خطرہ محسوس کرے تو ایسی ناگزیر صورت حال میں شوہر سے طلاق لے کر علیحدگی اختیار کی جائے اور وہ طلاق کے لیے آمادہ نہ ہو تو خلع پر آمادہ کیا جائے اگر شوہر کسی طرح بھی بیوی کو اپنی زوجیت سے الگ کرنے کے لیے تیار نہ ہو تو اس معاملے کو شرعی عدالت میں لے جاکر حل کریں، اگر آپ کو جان کا واقعی خطرہ ہے تو شوہر کے پاس جانا لازم نہیں اور شوہر کو زبردستی کا حق نہیں، شادی میں جو زیور، کپڑے اور سامان جہیز آب کو والدین کی طرف سے ملے ہیں وہ آپ کی ملکیت ہیں اور شوہر کی جانب سے جو زیور وغیرہ ملے ہیں اگر بطور ملکیت دیئے گئے ہیں تو وہ بھی آپ کی ملکیت ہیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند