• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 13689

    عنوان:

    میں نے اپنی بیوی کو تین طلا ق دے دی تھی، حلالہ کے لیے میں نے اپنی بیوی کا نکاح اپنے بھائی سے کرا دیا تھا۔ اس نکاح میں دو گواہ اور چار تولہ مہر تھی، عدت کے بعد میرے ساتھ نکاح ہونا تھا جب میرا نکاح دوبارہ ہوا تو نہ ہی گواہ پہنچے او رنہ ہی مہر بندھی، بلکہ یہ کہا کہ جو پہلے تھی و ہی مان لو۔ نکاح پڑھاتے وقت کہا کہ ?فلاں کی لڑکی تمہارے نکاح میں دی جارہی ہے کیا تمہیں قبول ہے?؟ مہر کا ذکر نہیں کیا۔ تو کیا بنا مہر کے ذکر کے نکاح جائز ہے؟

    سوال:

    میں نے اپنی بیوی کو تین طلا ق دے دی تھی، حلالہ کے لیے میں نے اپنی بیوی کا نکاح اپنے بھائی سے کرا دیا تھا۔ اس نکاح میں دو گواہ اور چار تولہ مہر تھی، عدت کے بعد میرے ساتھ نکاح ہونا تھا جب میرا نکاح دوبارہ ہوا تو نہ ہی گواہ پہنچے او رنہ ہی مہر بندھی، بلکہ یہ کہا کہ جو پہلے تھی و ہی مان لو۔ نکاح پڑھاتے وقت کہا کہ ?فلاں کی لڑکی تمہارے نکاح میں دی جارہی ہے کیا تمہیں قبول ہے?؟ مہر کا ذکر نہیں کیا۔ تو کیا بنا مہر کے ذکر کے نکاح جائز ہے؟

    جواب نمبر: 13689

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 961=961/م

     

    حدیث میں ہے: لا نکاح إلاّ بشھود، یعنی بغیر گواہوں کے نکاح صحیح نہیں ہوتا، لہٰذا دوبارہ آپ کا نکاح بغیر گواہوں کے ہوا وہ درست نہیں ہوا، نکاح کے وقت اگر مہر کا تذکرہ نہ ہو تو اس سے نکاح فاسد نہیں ہوتا بلکہ ایسی صورت میں مہر مثل واجب ہوتا ہے، بہرحال حلالہ کے بعد جب دوبارہ نکاح ہوگا تو اس میں بھی شرعی گواہوں کا موجود ہونا ضروری ہے۔ اور از سر نو مہر باندھی جائے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند