• عبادات >> طہارت

    سوال نمبر: 6816

    عنوان:

    آپ کے مسائل اوران کا حل حصہ دوم، باب تیمم میں مولانا یوسف لدھیانوی (رحمة اللہ علیہ) نے ذکر کیا ہے کہ اگر کوئی شخص وضو میں بیماری کی وجہ سے چہرہ دھونے سے معذور ہے تووہ تیمم کرسکتا ہے۔ لیکن ایک مفتی صاحب نے کہاکہ یہ بات درست نہیں ہے، تیمم صرف اس وقت جائز ہے جب کی بیماری ان چاروں اعضاء میں سے جن کا وضو میں دھونا فرض ہے تین عضو میں ہو ،ورنہ تیمم کرکے پڑھی جانے والی نماز درست نہیں ہوگی۔ صحیح مسئلہ کیا ہے؟ (۲) کیا اوپر مذکور مسئلہ میں مختلف رائے ہیں؟ برائے کرم اردو ترجمہ کے ساتھ حوالہ عنایت فرماویں۔

    سوال:

    آپ کے مسائل اوران کا حل حصہ دوم، باب تیمم میں مولانا یوسف لدھیانوی (رحمة اللہ علیہ) نے ذکر کیا ہے کہ اگر کوئی شخص وضو میں بیماری کی وجہ سے چہرہ دھونے سے معذور ہے تووہ تیمم کرسکتا ہے۔ لیکن ایک مفتی صاحب نے کہاکہ یہ بات درست نہیں ہے، تیمم صرف اس وقت جائز ہے جب کی بیماری ان چاروں اعضاء میں سے جن کا وضو میں دھونا فرض ہے تین عضو میں ہو ،ورنہ تیمم کرکے پڑھی جانے والی نماز درست نہیں ہوگی۔ صحیح مسئلہ کیا ہے؟ (۲) کیا اوپر مذکور مسئلہ میں مختلف رائے ہیں؟ برائے کرم اردو ترجمہ کے ساتھ حوالہ عنایت فرماویں۔

    جواب نمبر: 6816

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 1295=1216/ د

     

    آپ کے مسائل اور ان کا حل کے حوالہ سے جو بات نقل کی گئی ہے۔ اس مسئلہ میں حضرت مفتی محمد یوسف صاحب لدھیانوی علیہ الرحمة سے غالباً تسامح ہوگیا یا سہو کاتب ہے۔ صحیح مسئلہ وہی ہے جو دوسرے مفتی صاحب نے بیان کیا کہ چہرہ دھونے سے معذور شخص ہاتھ پیر دھوئے گا اور سر کا مسح بھی کرے گا، چہرہ پر مسح کرنا خواہ بعض حصہ پر ممکن ہو تو مسح کرے۔ قال في الدر تیمم لو کان أکثرہ أي أکثر أعضاء الوضوء عددًا وفي الغسل مساحةً مجروحًا أو بہ جدري اعتبارًا للأکثر وبعکسہ یغسل الصحیح ویمسح الجریح، اکثر سے مراد چاروں اعضاء میں سے ہرہرعضو کا اکثر حصہ، یا چاروں اعضاء کا اکثر یعنی تین اعضاء۔ ان دونوں صورتوں میں غسل ہی کا حکم ہے، تیمم کا نہیں۔ البتہ اگر مجروح حصہ نصف ہے یعنی چاروں اعضاء کا نصف نصف حصہ مجروح ہے، یا چار اعضاء میں سے دو عضو مجروح ہیں اس وقت غسل کرے اور مجروح حصہ کا مسح یا تیمم کرے؟ اس سلسلہ میں اصحاب مذہب سے کوئی رایت منقول نہیں ہے، البتہ بعد کے مشائخ سے دونوں قول منقول ہیں، یعنی بعض حضرات ایسے وقت تیمم کا حکم کرتے ہیں اور بعض دیگر حضرات غسل ومسح کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس صورت میں مشائخ کا اختلاف اور پھر ترجیح میں اختلاف کے بعد راجح کی تعیین ان سب کی تفصیل شامی ج:۱ ص:۱۸۹ میں لکھی ہے۔ لیکن آپ کے ساتھ جو مسئلہ درپیش ہے اس میں اعضائے وضو کے اکثر کے دھونے پر قدرت ہے یعنی چار اعضاء میں سے تین کے دھونے اور مسح کی قدرت ہے، لہٰذا اس صورت میں تیمم کا حکم نہیں ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند