• عبادات >> طہارت

    سوال نمبر: 168534

    عنوان: جوتوں پہ مسح کرنے کا حکم

    سوال: میں سعودی عرب مکہ مکرمہ میں رہتا ہوں، یہاں اکثر لوگ جورابوں اور جوتوں پہ مسح کرتے ہیں اس کا کیا حکم ہے ؟ کیا ان کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے ؟ ذرا تفصیل سے جواب دیں۔ اللہ آپ کو جزائے خیر دے ۔

    جواب نمبر: 168534

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:536-70T/SN=6/1440

    امت کے تمام مستند ومعتبر فقہا ومجتہدین اس پر متفق ہیں کہ کپڑے کے وہ باریک موزے جن سے پانی چھن جاتا ہو یا وہ کسی چیز سے باندھے بغیر محض اپنی ثخانت وموٹائی کی وجہ سے پنڈلی پر کھڑے نہ رہ سکتے ہوں یا چپل یا جوتے کے بغیر انھیں پہن کر میل دو میل مسلسل چلنا ممکن نہ ہو ان پر مسح جائز نہیں ہے۔ أما المسح علی الجوربین فإن کانا مجلدین، أو منعلین، یجزیہ بلا خلاف عند أصحابنا وإن لم یکونا مجلدین، ولا منعلین، فإن کانا رقیقین یشفان الماء، لایجوزالمسح علیہما بالإجماع، وإن کانا ثخینین لایجوز عند أبی حنیفة وعند أبی یوسف، ومحمد یجوز ) (بدائع الصنائع1/83، زکریا دیوبند)...فی المجتبی: لا یجوز المسح علی الجورب الرقیق من غزل أو شعر بلا خلاف․ (البحرالرائق:2/318، زکریا دیوبند) ؛کیونکہ قرآن کریم میں پیروں کا دھونا لازم قرار دیا گیا ہے ؛ مگر مسح علی الخفین کے سلسلے میں چوں کہ احادیث معنًی متواتر ہیں؛ اس لیے علمائے امت نے بالاجماع قرآن کریم کے حکم کو پیروں میں خفین نہ ہونے کے ساتھ مقید کیا ہے اورخفین کی صورت میں مسح کی اجازت دی ہے بشرطیکہ خفین طہارت پر پہنے گئے ہوں، اگر مسح علی الخفین کے سلسلہ میں یہ متواتر روایات نہ ہوتیں، صرف اخبار آحاد ہوتیں تو کسی صورت میں بھی مسح علی الخفین کی اجازت نہ ہوتی، اور "خف" عربی میں صرف چمڑے کے موزے کو کہتے ہیں، کپڑے کے موزے پر "خف"کا اطلاق نہیں ہوتا ہے ؛ اس لیے کپڑے کے عام موزوں پر مسح کی اجازت نہ ہوگی، البتہ کپڑے کے موزے خوب موٹے ہوں جن کی فقہائے کرام نے کچھ شرطیں ذکر کی ہیں تو ان پر مسح جائز ہے ؛ لیکن اس زمانے میں جس قسم کے اونی، سوتی یا نائیلون کے موزے رائج ہیں اور عام طور پر لوگ انھیں پہنتے ہیں، وہ باریک ہوتے ہیں اور ان پر فقہائے کرام کی ذکر کردہ شرائط نہیں پائی جاتی ہیں؛ لہذا ایسے موزوں پر مستند ومعتبر علما میں سے کسی کے نزدیک بھی مسح جائز نہ ہوگا اور اگر کوئی ایسے موزوں پر مسح کرے گا تو اس کا وضو نہ ہوگا اور جب وضو نہ ہوگا تو نماز بھی نہ ہوگی ، اور جو شخص اس طرح کے موزے پر مسح کرکے نماز پڑھائے گااس کے پیچھے نمازپڑھنے والوں کی نماز بھی نہ ہوگی۔

    (ب) جن جوتوں پر ”خف“ کی تعریف صادق نہ ہو ان پر مسح کرنا بالاتفاق جائز نہیں ہے ، معارف السنن میں ہے : ''لم یذہب أحد من الائمة إلی جواز المسح علی النعلین'' (۱/۳۴۸، ط: مطبوعہ مکتبہ اشرفیہ دیوبند) اور ایک روایت میں جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے جوتوں پر مسح کرنا ثابت ہے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت فرمایا تھا جب آپ پہلے سے باوضو تھے اور نئی نماز کے لیے تازہ وضو فرمایا تھا چناں چہ صحیح ابن خزیمہ (کتاب الوضوء، باب ذکر الدلیل علی أن مسح النبی صلی اللہ علیہ وسلم علی النعلین کان فی وضوء متطوع بہ لا فی وضوء واجب علیہ من حدث یوجب الوضوء) میں ہے : عن علی أنہ دعا بکوز من ماء، ثم توضأ وضوء ا خفیفا، ثم مسح علی نعلیہ، ثم قال: ہکذا وضوء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم للطاہر ما لم یحدث․ (صحیح ابن خزیمة رقم:200) مسئلہ کی مزید تفصیل کے لیے دیکھیں معارف السنن (۱/۳۴۸) اور فتاوی عثمانی (1:37تا 47) ان میں ان روایات پر بھی تفصیلی کلام ہے جن سے بعض حضرات علی الاطلاق ہرقسم کے موزوں پر مسح کے جواز پر استدلال کرتے ہیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند