عبادات >> طہارت
سوال نمبر: 158202
جواب نمبر: 158202
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 466-380/N=5/1439
غسل کے فرائض میں ترتیب یا پے در پے کی رعایت صرف سنت ہے ، فرض یا واجب نہیں ہے ؛ لہٰذا جو شخص غسل کے دوران کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا بھول گیا ہو تو یاد آنے پر اسے دوبارہ از سر نو غسل کرنے کی ضرورت نہیں، صرف کلی کرلینا اور ناک میں پانی ڈال لینا کافی ہے ۔ اور اگر ایسا شخص وضو کے دوران کلی کرلے اور ناک میں پانی ڈال لے تو بھی کافی ہے اور وہ نماز پڑھ سکتا ہے۔
وسنن الوضوء…والترتیب…والولاء…ومثلہ الغسل والتیمم (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الطھارة، ۱: ۲۱۸- ۲۴۶، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، قولہ: ”ومثلہ الغسل والتیمم“: أي: إذا فرق بین أفعالھما لعذر لا بأس بہ کما فی السراج، ومفادہ اعتبار سنیة الموالاة فیھما (رد المحتار)۔ أخرج البیھقي بسندہ أن عمر بن الخطاب رأی رجلاً وبظھر قدمہ لمعة لم یصبھا الماء، فقال لہ عمر: أبھذا الوضوء تحضر الصلاة؟ فقال: یا أمیر الموٴمنین! البرد شدید وما معي ما یدفئني، فرق لہ بعد ما ھم بہ فقال لہ: اغسل ما ترکت من قدمک وأعد الصلاة وأمر لہ بخمیصة (بذل المجھود، کتاب الطھارة، باب تفریق الوضوء، ۲: ۲۸، ط: دار البشائر الإسلامیة بیروت)۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند