• عبادات >> طہارت

    سوال نمبر: 152248

    عنوان: کھڑے کھڑے استنجاء کرنا جائز ہے یا نہیں؟

    سوال: حضرت مفتی صاحب! کھڑے کھڑے استنجاء کرنا جائز ہے یا نہیں؟ جب کہ وہاں صرف انگریزی ٹوائلٹ ہو۔

    جواب نمبر: 152248

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 1048-1046/N=10/1438

    عذر ومجبوری کی صورت میں کھڑے ہوکر پیشاب کرسکتے ہیں، باقی عام حالات میں کھڑے ہوکر پیشاب کرنا مکروہ وناپسندیدہ ہے۔ عذر ومجبوری یہ ہے کہ مثلاً کمر درر یا پیروں میں پھوڑا، پھنسی وغیرہ کی وجہ سے بیٹھنا ممکن نہ ہو یا پیشاب کی جگہ بہت زیادہ گندگی ہو اور بیٹھنے کی صورت میں کپڑے وغیرہ ناپاک ہوجانے کا اندیشہ ہو۔ اور انگریزی ٹوائلٹ میں اگر سیٹ کو پانی ڈال کر اچھی طرح پاک وصاف کرلیا جائے اور ٹشو سے خشک کردیا جائے تو اس پر بیٹھ کر پیشاب کرسکتے ہیں؛ اس لیے انگریزی ٹوائلٹ میں بھی بیٹھ کر پیشاب کرنا چاہیے؛ البتہ اگر کسی انگریزی ٹوائلٹ میں کوئی عذر ومجبوری کی صورت ہو تو وہاں بھی عذر کی وجہ سے کھڑے ہوکر پیشاب کرنے میں کچھ مضائقہ نہ ہوگا ۔

    و یکرہ أن یبول قائما…بلا عذر (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الطہارة، باب الأنجاس، فصل الاستنجاء: ۱: ۵۵۷، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، قولہ: ”وأن یبول قائما“:لما ورد من النھي عنہ ولقول عائشة: من حدثکم أن النبي صلی اللہ علیہ وسلم کان یبول قائماً فلا تصدقوہ ، ماکان یبول إلا قاعداً“ رواہ أحمد والترمذي والنسائي وإسنادہ جید ، قال النووي في شرح مسلم: وقد روي فی النھي أحادیث لا تثبت ولکن حدیث عائشة ثابت فلذا قال العلماء: یکرہ إلا لعذرٍ وہي کراہة تنزیہ لا تحریم الخ، وأما بولہ صلی اللہ علیہ وسلم فی السباطة التی بقرب الدور فقد ذکر عیاض أنہ طال علیہ مجلس حتی حفزہ البول فلم یمکنہ التباعد اھ، أو لما روي ”أنہ صلی اللہ علیہ وسلم بال قائماً لجرح بمأبضہ“ بھمزة ساکنة بعد المیم وباء موحدة: وھو باطن الرکبة، أو لوجع کان بصلبہ والعرب کانت تستشفي بہ أو لکونہ لم یجد مکاناً للقعود أو فعلہ بیاناً للجواز (رد المحتار)، قال: وقد قیل:کانت العرب تستشفي لوجع الصلب بالبول قائماً فلعلہ کان بہ إذ ذاک وجع الصلب، وقد ذکرہ الشافعي رحمہ اللہ بمعناہ (معارف السنن۱: ۱۰۵، ۱۰۶، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند