Pakistan
سوال # 160028
Published on: May 14, 2018
جواب # 160028
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:795-709/sn=8/1439
شیرز کا کام مطلقاً ناجائز نہیں ہے؛ بلکہ اگر کسی کمپنی کا بنیادی کاروبار حلال ہے اور وہ کمپنی خارج میں مع اثاثہ وجود میں بھی آچکی ہے تو اس کے شیرز خریدکر نفع کے ساتھ آگے فروخت کرکے پیسہ کمانا شرعاً جائز ہے، بس شرط یہ ہے کہ جس شخص سے شیئرز خریدے جائیں اس کے حق میں ان کی ڈلیوری ہوچکی ہو اسی طرح کہ مشتری بھی آگے فروخت کرنے میں اس شرط کو ملحوظ رکھے ورنہ بیع قبل القبض ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے، اگر شیرز خریدنے کا مقصد کمپنی کے اصل منافع میں شریک ہونا ہے تو جواز کے لیے ضروری ہے کہ کمپنی جو بینکوں کے ساتھ سودی لین دین کرتی ہے اس سے اپنی بیزاری کا اظہار کرے، نیز سالانہ جو منافع ملے اس میں سے ”سود“ کی مد میں حاصل شدہ منافع کو صدقہ کردے، کمپنی کی طرف سے جاری کردہ اسٹیٹمنٹ دیکھ کر اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ (دیکھیں: فقہی مقالات: ۱/۱۴۱، وبعدہ، امداد الفتاوی: ۳/ ۴۸۶، وبعدہ، ط: کراچی)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
اس موضوع سے متعلق دیگر سوالات
میں نے کپڑے کا فی گز 100 روپے لیااس پر میں 300 روپے منافع کرونگاکیاشریعت کی رو سے یہ جائز ہے؟
کیا چور بازار سے چوری کے جوتے خرید کر اپنے استعمال میں لاسکتے ہیں؟ یہی مسئلہ میں نے دیوبند کے ایک عالم سے پوچھا تھا تو انھوں نے چوری کے جوتے کو خرید کر اپنے استعمال میں لانے کو جائز کہا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قصہ سنایا جس میں ایک مرتبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کچھ کام کے لیے اپنے گھوڑے کو ایک آدمی کے حوالے کر کے گئے، جب واپس آئے تو گھوڑے کی زین وہ آدمی چوری کر کے چلا گیا تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ جب بازار میں نئی زین لینے گئے تو وہاں پر ان کی چوری کی زین بک رہی تھی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس چوری ہوئی زین کو خرید لیا۔ یہ قصہ سنا کر عالم صاحب نے کہا تھا کہ چوری کے جوتے خرید کر اپنے استعمال میں لاسکتے ہیں۔ چناں چہ اس مسئلہ میں آپ کا جواب چاہتا ہوں۔
ہم مختلف ممالک سے مصالحہ جات کو امپورٹ کرتے ہیں۔ ہم ایسے سامان کو خرید لیتے ہیں جو مستقبل میں ہمیں بحری جہاز کے ذریعہ بھیجا جائے گا؛ مثلاً ویتنام کے کالے مرچ کو اس وقت خرید لیں جو جون یاجولائی میں بذریعہ بحری جہاز بھیجے جائیں گے ، ہم اسے خرید لیتے ہیں۔ جہاز سے بھیجنے والے کو اس میں اختیا ر ہوتا ہے کہ وہ جون یا جولائی میں اس سامان کو بھیجے گا۔ اسی طرح ہم دیگر سامان بھی خریدتے ہیں۔ یہ سارے سامان فصل سے متعلق ہوتے ہیں جسے بائع فصل آنے سے پہلے بیچ دیتے ہیں۔ ہمیں بتایا گیا کہ یہ کنٹریکٹ (معاہدہ) نہیں ہوسکتا بلکہ سیل کنٹریکٹ ہوتا ہے۔ براہ کرم، قرآن و حدیث کے حوالے سے ہمیں بتائیں کہ کیا ہم صحیح کررہے ہیں ، کیا یہ درست ہے؟ اگر نہیں ، تو ہمارے موجودہ تجارتی تعلقات کو صحیح کرنے کے لیے کیا اقدامات کیے جاسکتے ہیں؟
شیئرز خریدنا حرام ہے یا حلال؟
شیئر دلالوں کے پاس بہت ساری کمپنیوں کے شیئرز ہوتے ہیں۔ کسی بھی دلال کے پاس ہم اپنا اکاؤنٹ کھول لیتے ہیں، جس کے لیے ہمیں 25000/-سیکوریٹی کے طور اس کے پاس جمع کرنا پڑتا ہے۔ روزآنہ اپنے گھر بیٹھے کمپیوٹر کے ذریعہ مارکیٹ کے حالات معلوم کر لیے جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔گزارش ہے کہ شریعت مطہرہ کی روشنی میں رہ نمائی فرمائیں کہ کیا اس طرح کاروبار کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟
کاپی رائٹ (حقوق محفوظ) کا کیا حکم ہے؟
پبلک لمٹید کمپنیوں جیسے سیمنٹ بنانے والی کمپنیوں، گیس اور تیل کی کمپنیوں، ٹیلی کمیونیکیشن کمپنیوں وغیرہ کے شیئرز کے ڈیویڈنڈ کا کیا حکم ہے؟ کیا ان کا ڈیویڈنڈحلال ہے؟
زمین کا ایک دلال ایک شخص کو زمین بیچ رہا تھا ، اس خریدنے والے شخص نے اس کو کچھ روپئے ایڈوانس دیے، اس کے باوجود بھی کیا دلال اس زمین کو کسی دوسرے شخص کے ہاتھ بیچ سکتا ہے؟
کیا میں شیئر مارکیٹ (بامبے اسٹاک ایکسچینج ) میں ایسی کمپنیوں میں سرمایہ کاری کرسکتا ہوں جو تیل، گیس، شکر، اسٹیل وغیرہ کی تجارت کرتی ہیں؟ کیا از روئے شرع اس کی اجازت ہے؟
کیا کسی انشورنس کمپنی کے ذریعہ کیے جانے والے شیئر بزنس میں حصہ لینا درست ہے؟