• عبادات >> صوم (روزہ )

    سوال نمبر: 68679

    عنوان: نماز کا فدیہ زندگی میں نہیں ادا کیا جاسکتا

    سوال: (۱) روزے کا کفارہ پونے دو سیر گیہوں ہے یا دو مسکینوں کو کھانا کھلانا؟ اگر دو مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے تو پھر ایک روزے کا کفارہ ساڑھے تین سیر گیہوں ہوگا؟ (۲) اسی طرح ایک نماز کا کفارہ دو مسکینوں کو کھلانا ہے یا پونے دو سیر گیہوں؟

    جواب نمبر: 68679

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 1258-1269/N=11/1437 (۱) : روزے کے کفارے میں اگر کوئی شخص بہت بڑھاپے کی وجہ سے یا کسی ایسی بیماری کی وجہ سے روزہ کی طاقت نہ رکھتا ہو جس سے شفا یابی کی امید نہ ہو تو وہ ساٹھ مسکینوں کو دو وقت پیٹ بھر کھانا کھلادے یاہر مسکین کو صدقہ فطر کے بقدر گیہوں (یعنی: ایک کلو ۶۳۳/ گرام گیہوں) یا اس کی قیمت دیدے یاایک وقت پیٹ بھر کھانا کھلاکر دوسرے وقت کھانے کا اتنا پیسہ دیدے جس میں بآسانی پیٹ بھر کھانا کھایا جاسکے، یا ایک ہی مسکین کو ساٹھ دن دو وقت پیٹ بھر کھانا کھلادے، یہ سب صورتیں درست ہیں۔ اور کفارے میں ساٹھ مسکینوں کو دو وقت پیٹ بھر کھانا کھلانے میں کھانے کی مقدار یا اس کی قیمت کا اعتبار نہیں ہوتا، البتہ کھانا مناسب ہونا چاہئے جو بآسانی رغبت کے ساتھ پیٹ بھر کھایا جاسکے، وإن جامع المکلف آدمیاً مشتھی في رمضان أداء…… أو جومع أو توارت الحشفة في أحد السبیلین أنزل أو لا أو أکل أو شرب غذاء …أو دواء … …عمداً …قضی…وکفر …ککفارة المظاہر (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصوم، باب ما یفسد الصوم وما لا یفسدہ، ۳: ۳۸۵-۳۹۰، ط: مکتبة زکریا دیوبند) ، فإن عجز عن الصوم لمرض لا یرجی بروٴہ أو کبر أطعم أي: ملک ستین مسکیناً …… کالفطرة قدراً ومصرفاً ۰و قیمة ذلک من غیر المنصوص……وإن أراد الإباحة فغداھم وعشاھم أو غداھم وعشاھم قیمة العشاء أو عکسہ … وأشبعھم جاز (المصدر السابق، کتاب الطلاق، باب الظھار، فصل فی الکفارة، ۵: ۱۴۳، ۱۴۴) ۔ (۲) : نماز کا فدیہ زندگی میں نہیں ادا کیا جاسکتا، وصیت کی صورت میں آدمی کے انتقال کے بعد ہی ادا کیا جاسکتا ہے، اور ایک نماز کا فدیہ وہی ہے جو صدقہ فطر کی مقدار ہے، یعنی: نصف صاع (ایک کلو ۶۳۳/ گرام) گیہوں یا ایک صاع (۳/ کلو ۲۶۶/ گرام) جو، کھجور یا کشمش یا ان میں سے کسی کی قیمت دیدی جائے، صدقہ فطر یا نماز کے فدیہ میں دسترخوان پر بٹھاکر غریبوں کو کھانا کھلانا کافی نہیں ہے؛ بلکہ فدیہ کا گیہوں، جو، کھجور یا کشمش یا ان میں سے کسی کی قیمت کا مالک بنانا ہی ضروری ہے، ولو مات وعلیہ صلوات فائتة وأوصی بالکفارة یعطی لکل صلاة نصف صاع من بر کالفطرة، وکذا حکم الوتر والصوم (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاة، باب قضاء الفوائت، ۲: ۵۳۲، ۵۳۳، ط: مکتب زکریا دیوبند) ، قولہ: ”نصف صاع“ : أي: أو من دقیقہ أو سویقہ أو صاع تمر أو شعیر أو قیمتہ …إمداد (رد المحتار) ، وفی القنیة: ولا فدیة فی الصلاة في حالة الحیاة بخلاف الصوم (رد المحتار ۲: ۵۳۵) ، وھو -مصرف الزکاة- مصرف أیضاً لصدقة الفطر والکفارة والنذر وغیر ذلک من الصدقات الواجبة کما فی القھستاني (رد المحتار، کتاب الزکاة، باب المصرف، ۳: ۲۸۳) ۔ نوٹ: اگر پہلے سوال میں روزے کے کفارہ سے روزہ کا فدیہ مراد ہے تو معلوم ہونا چاہیے کہ ایک روزہ کا فدیہ وہی ہے جو ایک نماز کا فدیہ ہوتا ہے، البتہ روزہ کا فدیہ زندگی میں بھی دیا جاسکتا ہے، بشرطیکہ جس بیماری کی وجہ سے آدمی روزہ رکھنے کی طاقت نہیں رکھتا وہ اس نوعیت کی ہو کہ اس سے شفایابی کی امید نہ ہو یا آدمی بہت بوڑھا ہو اور دن بدن ضعف بڑھ رہا ہو۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند