• عبادات >> صوم (روزہ )

    سوال نمبر: 161548

    عنوان: کیا رمضان سے پہلے دیا ہوا فدیہ ادا ہو جائے گا ؟

    سوال: سوال1: اگر آئندہ روزہ رکھنے کے قابل صحت یابی ممکن نہ ہو تو وہ رمضان سے پہلے فدیہ اپنے روزوں کا دے سکتا ہے ؟ کیا رمضان سے پہلے دیا ہوا فدیہ ادا ہو جائے گا؟ ایک مفتی صاحب نے فرمایا کہ راجح قول یہ ہے کہ رمضان سے پہلے دیا ہوا فدیا ادا ہو جائے گا، کیا یہ درست ہے ؟ مدلل جواب مرحمت فرمائے - سوال 2:اگر کسی کو وکیل بنا کر کے رمضان سے پہلے فدیہ کی رقم دی جائے اور ان کو یہ کہا جائے کہ رمضان کے شروع میں میرا یہ فدیہ ادا کردینا، کیا ایسی صورت میں فدیہ ادا ہو جائے گا؟ سوال3: زید اور ان کا رشتہ دار انگلینڈ یوکے میں مقیم ہے ، اس نے اپنی اور رشتدار کی فدیہ کی رقم انڈیا بھیجی اور وہاں پر انڈیا کے صدقة الفطر کی قیمت کے مطابق ادا کی (جس کی قیمت کم بنتی ہیں ) نہ کہ انگلینڈ یوکے کے صدقة الفطر کے مطابق (جس کی قیمت زیادہ بنتی ہیں)، کیا زید اور ان کے رشتدار کا فدیہ جو انڈیا کے صدقة الفطر کے مطابق ادا کیا ہو، ادا ہو جائے گا یا دوبارہ انگلینڈ یوکے کے صدقة الفطر کے مطابق ادا کرنا ضروری ہے ؟ مدلل جوابات مرحمت فرما ئے بینوا توجروا جزاکم اللہ تعالیٰ خیرا

    جواب نمبر: 161548

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:971-886/D=10/1439

    (۱) جی ہاں ایسا شیخ فانی جسے آئندہ روزہ رکھنے کی قوت حاصل ہونے کی امید نہ ہو وہ روزوں کا فدیہ ادا کردے اور فدیہ رمضان کے شروع میں ادا کرسکتا ہے۔

     قال في الدر وللشیخ الفاني العاجز عن الصوم الفطر ویفدي وجوبًا ولو في أول الشہر الخ قولہ ولو في أول الشہر أي یخیر بین دفعہا في أولہ وآخرہ کما في البحر․

    (۲) ہاں، غریب تک رمضان کے شروع میں ا دائیگی ہورہی ہے اس لیے یہ صورت جائز ہے۔

    (۳) آدمی جہاں مقیم ہو فدیہ اور فطرہ میں وہیں کی قیمت کا اعتبار ہوگا، یعنی یوکے میں پونے دو سیر گیہوں (ایک کلو چھ سو تینتیس گرام) وہاں کی جس قیمت میں ملے گا اتنی قیمت ادا کرنی ہوگی قال في الدر ویعتبر مکانہ لنفسہ الخ وعلیہ الفتوی قال في الولوالجیة لأن سبب وجوبہ رأسہ ومحل الوجوب، (ج۱ص۲۴۶)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند