• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 9445

    عنوان:

    میں اسلام آباد میں کام کرتا ہوں۔ ہفتہ کے دن میں اپنے گاؤں جاتاہوں۔ اس دوران میری ظہر اورعصر کی نماز چھوٹ جاتی ہے خاص طور پر ٹھنڈی میں۔ مجھے کیا کرنا چاہیے؟ دوری تقریباً 125کلومیٹرہے۔ [2] نیز امام کے پیچھے نماز پڑھنے کے وقت ہمیں کیا کرنا چاہیے یعنی رکوع، سجدہ اورتشہد میں؟ کیا ہمیں اپنی تسبیح اورالتحیات چھوڑدینا چاہیے یا پورا کرنا چاہیے؟

    سوال:

    میں اسلام آباد میں کام کرتا ہوں۔ ہفتہ کے دن میں اپنے گاؤں جاتاہوں۔ اس دوران میری ظہر اورعصر کی نماز چھوٹ جاتی ہے خاص طور پر ٹھنڈی میں۔ مجھے کیا کرنا چاہیے؟ دوری تقریباً 125کلومیٹرہے۔ [2] نیز امام کے پیچھے نماز پڑھنے کے وقت ہمیں کیا کرنا چاہیے یعنی رکوع، سجدہ اورتشہد میں؟ کیا ہمیں اپنی تسبیح اورالتحیات چھوڑدینا چاہیے یا پورا کرنا چاہیے؟

    جواب نمبر: 9445

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 1657=1360/ ل

     

    (۱) آپ نے ظہر و عصر چھوٹنے کی کوئی وجہ بیان نہیں کی، بغیر کسی شدید مجبوری کے سفر میں بھی نماز قضاء کردینا گناہ کبیرہ ہے۔

    (۲) آپ کا یہ سوال بھی مجمل ہے اگر آپ کے سوال کا مقصد یہ ہے کہ امام صاحب میری تسبیح وتشہد مکمل ہونے سے پہلے کھڑے ہوجائیں تو مجھے اپنی تسبیح وتشہد پوری کرنی چاہیے یا امام کے ساتھ کھڑا ہوجانا چاہیے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر تسبیح تین مرتبہ مکمل ہونے سے پہلے امام کھڑا ہوجائے تو مقتدی کو بھی امام کے ساتھ کھڑا ہوجانا چاہیے، البتہ اگر التحیات مکمل ہونے سے پہلے امام کھڑا ہوجائے تو مقتدی کو التحیات مکمل کرلینے کے بعد کھڑا ہونا چاہیے: قال في الشامي: والحاصل إن متابعة الإمام في الفرائض والواجبات من غیر تأخیر واجبة فإن عارضہا واجب لا ینبغي أن یفوتہ بل یأتي بہ ثم یتابع کما لو قام الإمام قبل أن یتم المقتدي التشہد فإنہ یتمہ ثم یقوم لأن الإتیان بہ لا یفوت المتابعة بالکلیة وإنما یوٴخرہا ․․․․ بخلاف ما إذا عارضھا سنة کما لو رفع الإمام قبل تسبیح المقتدي ثلاثاً فالأصح أنہ یتابعہ لأن ترک السنة أولی من تأخیر الواجب (شامي: ۲/۱۶۵)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند