• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 4486

    عنوان:

    ہماری سوسائٹی میں ایک مالدار لڑکا رہتا ہے جو کہ حافظ قرآن بھی ہے۔ رمضان کے مہینہ میں وہ تراویح سنانے کے لیے کسی دوسری جگہ جاتا ہے۔ وہ اپنے کاروبار میں جو کہ موبائل فون اور اس کے پرزوں کی خریدو فروخت کا ہے اسلامی طریقہ کی اقتداء نہیں کرتا ہے(شریعت کو بالائے طاق رکھ دیتا ہے)۔عیدالاضحی کے موقع پر چند دن پہلے وہ لڑنے والے بھیڑ خریدتا ہے اور اس کو ہماری سوسائٹی میں لڑانے کے لیے لاتا ہے۔ وہ ہمارے علاقہ کے دوسرے بھیڑوں کے ساتھ بھیڑ لڑاتا ہے۔ باہر کے لوگ لڑانے کے لیے اپنے بھیڑ لے کرکے بھی ہماری سوسائٹی میں آتے ہیں ۔اوپر مذکور حافظ صاحب اپنے بھیڑوں کو لڑانے کے لیے بہت مشہور ہیں۔ لڑائی کے دوران جب بھیڑایک دوسرے سے الجھتے ہیں یا ٹکر مارتے ہیں تو یہ منظر دیکھنے کے قابل نہیں ہوتا ہے اور بھیڑ زخمی بھی ہوتے ہیں۔کبھی کبھی بھیڑ کے سر سے خون بہنے لگتا ہے۔اوپر کا منظر پندرہ دن سے جاری ہے جو کہ دو تین بجے رات تک چلتا ہے۔ ساتھ ساتھ حافظ صاحب ان بھیڑوں کی لڑائی کااپنے موبائل سے ویڈیوبھی بناتے ہیں اور اپنے دوستوں کو بھیجتے ہیں۔ حافظ صاحب تبلیغی جماعت سے بھی جڑے ہوئے ہیں۔ کبھی کبھی وہ ہماری سوسائٹی کی مسجد میں امامت بھی کرتے ہیں۔ میں کوئی اعتراض نہیں کررہا ہوں میں تو صرف اپنی نماز کے بارے میں فکر مند ہوں۔ کیا ہم اس طرح کے امام کے پیچھے نماز ادا کرسکتے ہیں، کیا وہ امامت کے لائق ہیں؟ مجھے قرآن اورحدیث کی روشنی میں تفصیلی جواب عنایت فرماویں۔

    سوال:

    ہماری سوسائٹی میں ایک مالدار لڑکا رہتا ہے جو کہ حافظ قرآن بھی ہے۔ رمضان کے مہینہ میں وہ تراویح سنانے کے لیے کسی دوسری جگہ جاتا ہے۔ وہ اپنے کاروبار میں جو کہ موبائل فون اور اس کے پرزوں کی خریدو فروخت کا ہے اسلامی طریقہ کی اقتداء نہیں کرتا ہے(شریعت کو بالائے طاق رکھ دیتا ہے)۔عیدالاضحی کے موقع پر چند دن پہلے وہ لڑنے والے بھیڑ خریدتا ہے اور اس کو ہماری سوسائٹی میں لڑانے کے لیے لاتا ہے۔ وہ ہمارے علاقہ کے دوسرے بھیڑوں کے ساتھ بھیڑ لڑاتا ہے۔ باہر کے لوگ لڑانے کے لیے اپنے بھیڑ لے کرکے بھی ہماری سوسائٹی میں آتے ہیں ۔اوپر مذکور حافظ صاحب اپنے بھیڑوں کو لڑانے کے لیے بہت مشہور ہیں۔ لڑائی کے دوران جب بھیڑایک دوسرے سے الجھتے ہیں یا ٹکر مارتے ہیں تو یہ منظر دیکھنے کے قابل نہیں ہوتا ہے اور بھیڑ زخمی بھی ہوتے ہیں۔کبھی کبھی بھیڑ کے سر سے خون بہنے لگتا ہے۔اوپر کا منظر پندرہ دن سے جاری ہے جو کہ دو تین بجے رات تک چلتا ہے۔ ساتھ ساتھ حافظ صاحب ان بھیڑوں کی لڑائی کااپنے موبائل سے ویڈیوبھی بناتے ہیں اور اپنے دوستوں کو بھیجتے ہیں۔ حافظ صاحب تبلیغی جماعت سے بھی جڑے ہوئے ہیں۔ کبھی کبھی وہ ہماری سوسائٹی کی مسجد میں امامت بھی کرتے ہیں۔ میں کوئی اعتراض نہیں کررہا ہوں میں تو صرف اپنی نماز کے بارے میں فکر مند ہوں۔ کیا ہم اس طرح کے امام کے پیچھے نماز ادا کرسکتے ہیں، کیا وہ امامت کے لائق ہیں؟ مجھے قرآن اورحدیث کی روشنی میں تفصیلی جواب عنایت فرماویں۔

    جواب نمبر: 4486

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 1316=1043/ ھ

     

    ان حافظ صاحب کی امامت مکروہ ہے کذا فی الفتاوی البدائع الصنائع ج۱ ص۱۵۷، اگر موقع ہو تو دوسری جگہ جاکر پڑھ لیا کریں ورنہ نماز ان کے پیچھے ہی ادا کرلیا کریں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند