عبادات >> صلاة (نماز)
سوال نمبر: 176641
جواب نمبر: 176641
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 600-550/L=08/1441
اگر امام جہری نماز یعنی فجر، مغرب، عشاء اور جمعہ وغیرہ میں چھوٹی تین آیتوں کے بقدر قرأت آہستہ پڑھے پھر چاہے ازخود یا کسی کے لقمہ دینے پر آواز سے قرأت کرنے لگے تو اس پر سجدہ واجب ہوگیا، اگر سجدہٴ سہو کر لیا تو نماز ہوگئی۔
وفي الدر المختار: (والجہر فیما یخافت فیہ) الإمام (وعکسہ) لکل مصل في الأصح والأصح تقدیرہ (بقدر ما تجوز بہ الصلاة في الفصلین ۔ وقیل) قائلہ قاضي خان یجب السہو (بہما) أي بالجہر والمخافتة (مطلقا) أي قل أو کثر (وہو ظاہر الروایة) واعتمدہ الحلواني ۔ وفي رد المحتار: (قولہ والأصح إلخ) وصححہ في الہدایة والفتح والتبیین والمنیة لأن الیسیر من الجہر والإخفاء لا یمکن الاحتراز عنہ، وعن الکثیر یمکن، وما تصح بہ الصلاة کثیر، غیر أن ذلک عندہ آیة واحدة، وعندہما ثلاث آیات ہدایة۔ (قولہ في الفصلین) أي في المسألتین مسألة الجہر والإخفاء ۔ (قولہ قل أو کثر) أي ولو کلمة۔ قال القہستاني: والمتبادر أن یکون ہذا في صورة أن ینسی أن علیہ المخافتة فیجہر قصدا، وأما إذا علم علیہ المخافتة فیجہر لتبیین الکلمة فلیس علیہ شيء ۔ اھ ۔ (قولہ وہو ظاہر الروایة) قال في البحر: وینبغي عدم العدول عن ظاہر الروایة الذي نقلہ الثقات من أصحاب الفتاوی ۔ اھ ․․․․․ وقال في شرح المنیة: والصحیح ظاہر الروایة، وہو التقدیر بما تجوز بہ الصلاة من غیر تفرقة لأن القلیل من الجہر في موضع المخافتة عفو أیضا؛ ففي حدیث أبي قتادة في الصحیحین ”أنہ - علیہ الصلاة والسلام - کان یقرا فی الظہر الأولیین بأم القرآن وسورتین، وفي الأخریین بأم الکتاب ویسمعنا الآیة أحیانا“۔ اھ۔ ففیہ التصریح بأن ما صححہ في الہدایة ظاہر الروایة أیضا، فإن ثبت ذلک فلا کلام، وإلا فوجہ تصحیحہ ما قلنا وتأیدہ بحدیث الصحیحین وقد قدمنا في واجبات الصلاة عن شرح المنیة أنہ لا ینبغي أن یعدل عن الدرایة أي الدلیل إذا وافقتہا روایة۔ (رد المحتار: ۲/۸۱) ۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند