• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 175201

    عنوان: کیا قصر نماز میں دو نمازوں کو ساتھ ملا کر پڑھ سکتے ہیں ؟

    سوال: کیا قصر نماز میں دو نمازوں کو ساتھ ملا کر پڑھ سکتے ہیں ؟ اس کا کیا حکم ہے؟

    جواب نمبر: 175201

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 319-66T/D=04/1441

    حنفیہ کے یہاں سفر میں بھی دو نمازوں کو ایک وقت میں جمع کرنا جائز نہیں، کیونکہ ہر نماز اپنے وقت مقررہ میں فرض کی گئی ہے۔ إن الصلٰوة کانت علی الموٴمنین کتابا موقوتاً ․ وقت سے پہلے جائز نہیں اور وقت کے بعد قضا کہلائے گی۔

    البتہ ایسی صورت اختیار کی جائے کہ ظہر کی نماز اس کے آخری وقت میں اور عصر کی نماز اس کے ابتدائی وقت پڑھی جائے جس سے صورةً جمع کرنا معلوم ہو، یہ جائز ہے۔ حدیث میں اسی جمع صوری کو بتلایا گیا ہے جیسا کہ حضرت انس اور ابن عمر کی روایات سے معلوم ہوتا ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت ابوداوٴد باب الجمع بین الصلوتین، رقم: ۱۲۱۲، میں ہے اور ابن عمر کی روایت مجمع الزوائد، رقم: ۲۹۷۴، میں ہے۔

    مزید وضاحت کے لئے ایک تفصیلی فتویٰ منسلک کیا جاتا ہے۔

    -----------------------

    حنفیہ کے نزدیک جمع بین الصلاتین کا حکم

     احادیث و آثار کی روشنی میں

    معظم ومحترم جناب مفتی صاحب !      السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ

    سوال:﴿۳۱﴾گذارش ہے کہ میں شہر الٰہ آباد (یوپی)ہندوستان کا باشندہ ہوں ،کچھ عرصہ سے بسلسلہ ملازمت، ریاض سعودی عرب میں مقیم ہوں ، یہاں پر میرے ہم مسلک (حنفی) بہت سے ہندوستانی وپاکستانی احباب بہ سلسلہ ملازمت رہتے ہیں ، سب انگریزی داں ہیں ،دینی رجحان تو رکھتے ہیں، لیکن اپنے حنفی مسلک کے مسائل میں پختگی نہ ہونے کی وجہ سے اور یہاں سعودی عرب میں عملی طور سے جو کچھ یہاں کے لوگوں کو کرتے دیکھتے ہیں، ویسے ہی خود بھی عمل کرنے لگتے ہیں، کچھ باتیں تو فروعی ہیں، لیکن کچھ اہمیت کی حامل بنیادی ہیں ، فی ا لحال آپ کی توجہ ایک اہم ضروری مسئلہ کی طرف مبذول کرانا چاہتاہوں، سفر میں ظہر وعصر اور مغرب وعشا ء ملا کر ایک ساتھ پڑھتے ہیں ،یعنی ظہر کے وقت ظہر وعصر کی یا عصر کے وقت ظہر کی اور ایسے ہی مغرب اور عشاء میں یہاں کے لوگ پڑھتے ہیں اور اس سلسلہ میں بخاری شریف کا حوالہ دیتے ہیں ، بخاری شریف کی جن حدیثوں کا حوالہ دیتے ہیں ان کی عکسی نقل منسلک ہے۔ دریافت طلب مسائل درج ذیل ہیں:

    (۱)منسلکہ عکسی مضمون(۱) کے صفحہ :۲۲۸/پر جو حدیث نمبر: ۱۰۶ ۱/لغائت ۱۱۰۸/ درج ہیں، ان کی اصلیت وحقیقت کیا ہے ؟یعنی صحیح ہیں یا ضعیف ہیں ؟

    (۲)کیا منسلکہعکسی مضمون کے صفحہ:۲۲۹/کے آخر میں جو قرآن مجید کی سورہ نساء کی آیت نمبر: ۱۰۳/ یعنی نماز مومنوں پر وقت مقررہ میں فرض ہے، اورحضرت عبد اللہ بن مسعود tکی روایت کردہ حدیث درج ہے ان سے مندرجہ بالا حدیث نمبر/ ۱۱۰۶لغائت ۱۱۰۸/مطابقت کرتی ہیں؟

    (۳)کیا حدیث نمبر :۱۱۰۶/لغائت ۱۱۰۸/ مذکور سورہ نساء کی آیت نمبر:۱۰۳/کے نازل ہونے کے پہلے کی ہیں ؟اگر ایسا ہے تو ان کا کیا اثر ؟

    براہ کرم مسائل مندرجہ بالا کامفصل جواب مع حوالہ جات مرحمت فرمائیں، تاکہ میں اپنے ساتھیوں کو مطمئن کرسکوں اور ان لوگوں کو تسلی وتشفی ہوجائے ،عین نوازش ہوگی۔

                                              دعاؤں کا طالب :محمد عبد الباری (۱۰۴۹/د ۱۴۲۸ئھ)

     الجواب وباللہ التوفیق :

    سوالنامہ کے ہمراہ بخاری شریف مترجم کے چند صفحات موصول ہوئے، بطور جواب مختصراً عرض ہے کہ:کسی حکم شرعی کے ثابت ہونے کی چار دلیلیں ہیں، جن سے علی الترتیب مرتبے کے فرق سے حکم شرعی ثابت ہوتا ہے:کتاب اللہ، سنتِ رسول اللہ، اجماعِ امت اور قیاس(۲)نماز کے اوقات کے سلسلے میں قرآن پاک میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایا : اِنَّ الصَّلَوٰةَ کَانَتْ عَلٰی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتٰبًا مَوْقُوْتًا۔(سورہ نساء: ۱۰۳)، اس سے معلوم ہوا کہ نمازوقت مقررہ میں فرض کی گئی ہے، اور اس بات کی اہمیت درج ذیل احادیث سے معلوم ہوتی ہے :

    (۱) عن عثمان بن عبد اللّٰہ بن موہب قال:سئل أبوہریرة:ما التفریط في الصلاة؟ قال: أن توٴخر حتی یجییٴ وقت الأخری۔ رواہ الطحاوي واسنادہ صحیح(۳)

    حضرت ابوہریرہ سے دریافت کیا گیا کہ نماز میں تفریط (کوتاہی) کیا ہے؟ تو آپنے جواب میں فرمایا کہ (کوتاہی) یہ ہے کہ (نمازکو) اتنی تاخیر سے ادا کرے کہ دوسری نماز کا وقت آجائے۔

    (۲) وعن أبي قتادہ: أن رسول ا للّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم قال:أما إنہ لیس في النوم تفریط ،إنما التفریط علی من لم یصل حتی یجییٴ وقت الصلوٰة الأخری۔ رواہ مسلم(۴)۔

    حضرت قتادہسے مروی ہے کہ حضورBنے فرمایا کہ سنو! سونے میں تفریط نہیں؛ لیکن تفریط تو اس شخص کی جانب سے ہے، جو نماز نہ پڑھے یہاں تک کہ دوسری نماز کا وقت آجائے۔

    (۳) وعن طاوٴس عن ابن عباسقال:لا یفوت صلوة حتی یجےئی وقت الأخری۔ رواہ الطحاوي واسنادہ صحیح(۵)۔

    ابن عباسسے مروی ہے : وہ فرماتے ہیں کہ نماز فوت نہیں ہوتی؛ مگر اس وقت جب دوسری نماز کا وقت آجائے۔

    (۴) وعن عبد اللّٰہ بن مسعودقال:ما رأیت رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم صلّی صلوةً إلا لوقتہا إلا أنہ جمع بین الظہر والعصر بعرفة والمغرب والعشاء بجمع(۶)۔

    حضرت ابن مسعودنے بیان کیا کہ میں نے حضورBکو کبھی بھی بے وقت نماز ادا کرتے نہیں دیکھا، سوائے اس کے کہ آپBنے ظہر اور عصر کو عرفہ میں اور مغرب اور عشاء کو جمع (مزدلفہ) میں جمع کیا۔

    (۵) أخرج الترمذي عن ابن عباسعن النّبی صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم قال: من جمع بین الصلٰوتین من غیر عذر فقد أتی بابا من أبواب الکبائر، أخرجہ الترمذی، باب ما جاء فی الجمع بین الصلاتین فی الحضر، رقم: ۱۸۸۔

    ابن عباس فرماتے ہیں کہ حضورBنے فرمایا کہ جس شخص نے بلا عذر دو نمازوں کو ایک وقت میں ادا کیا، اس نے گناہِ کبیرہ کا ارتکاب کیا۔

    (۶)وقد صح عن عمر بن الخطابأنّہ کتب إلی أبي موسٰی، واعلم ! أن جمعا بین الصلوتین من غیرعذر من الکبائر(۷)، وفي حدیث:ثلاث من الکبائر: منہا الجمع بین الصلٰوتین إلا من عذر(۸)۔

    حضرت عمر نے حضر ت ابو موسیٰ اشعری کو لکھ بھیجا کہ جان لو کہ بلاعذر دو نمازوں کو اکٹھا پڑھنا گناہِ کبیرہ ہے۔

    آیت قرآنی اور احادیث نمبر۱،۲،۳،سے معلوم ہوا کہ نماز وقت مقررہ پر پڑھنا فرض ہے اور بے وقت کر کے پڑھنا گناہ ہے ، اس کو حدیث میں تفریط کہا گیا ہے، اور حدیث نمبر:۴/میں سوائے عرفہ ومزدلفہ کے، آپBکے جمع کرنے کی صراحةً نفی کی جارہی ہے ، حدیث نمبر:۵ - ۶میں بغیر عذر کے جمع کرنے کو گناہ کبیرہ کہا جا رہا ہے ۔

    یقینا رسول اللہBقرآن کے شارح اور مفسرہیں؛ لیکن بخاری شریف کی مذکور فی السوال تینوں حدیثوں میں یا ان کے علاوہ کسی اور حدیث میں، اس بات کا صراحةً ذکر نہیں ہے کہ آپ Bنے وقت آنے سے پہلے نماز پڑھ لی ہو، صرف جمع کرنے کا لفظ ہے، اگر اس لفظ سے مراد، وقت سے پہلے نماز پڑھنا لیا جائے تو یہ روایتیں دوسری صحیح روایتوں اور آیتِ قرآنی کے معارض ہوجائیں گی، اور اگر جمع صوری پر محمول کیا جائے،جیسا کہ آگے آنے والی روایتوں میں اس کی صراحت ہے، یعنی آپBاس طرح جمع کرتے تھے کہ ظہر کے آخری وقت میں ظہر کی نماز پڑھتے اور عصر کے ابتدائی وقت میں عصر کی نماز اس شکل میں جمع پر عمل ہونے کے ساتھ ہر نماز اپنے اپنے وقت میں ادا ہوجائے گی، جب کہ متعدد روایات سے اس جمع صوری کی تائید بھی ہوتی ہے، جیسا کہ ابن عمرکی روایت میں ہے کہ ابن عمرکے موٴذن نے(دورانِ سفر)یاد دہانی کرائی کہ نماز! تو انہوں نے کہا کہ چلتے رہو ،چلتے رہو ، یہاں تک کہ جب شفق کے غائب ہونے سے تھوڑا پہلے کا وقت ہوا، تومغرب کی نماز پڑھی، پھر انتظار کیا یہاں تک کہ شفق غائب ہوگئی تو عشاء کی نماز پڑھی، پھر انہوں نے فرمایا کہ: رسول اللہ Bسفرمیں ایسا ہی کرتے تھے، حدیث کے الفاظ یہ ہیں:

    (۷) إن موٴذن ابن عمرقال: الصّلاة، قال: سرْ سرْ حتی إذا کان قبل غیوب الشفق، نزل فصلی المغرب، ثم انتظر حتی غاب الشفق، فصلی العشاء، ثم قال: إن رسول اللّہ صلی اللّہ علیہ وسلّم کان إذا عجل بہ أمرصنع مثل الّذي صنعت۔

                                              (رواہ ابو داؤد، رقم: ۱۲۱۲،باب الجمع بین الصلاتین)

    رہی حضرت انسکی روایت جو سوال نامے کے عکسی مضمون میں شرح کے طور پر مذکور ہے تو حضرت انس کی ہی دوسری روایت میں یہ بات اور واضح طور پر مذکور ہے:

    (۸) أنّہ کان إذا أراد أن یجمع بین الصلوتین في السفر أخّر الظہر إلی آخر وقتہا وصلی العصر فی أوّل وقتہا ویصلی المغرب إلٰی آخر وقتہا ویصلی العشاء فی أوّل وقتہا ویقول ہکذا کان رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم یجمع بین الصلوتین فی السفر۔(مجمع الزوائد، رقم:۲۹۷۴، دار الفکر، بیروت)

    صحابہٴ کرام، رسول اللہBکے قول وعمل کے ترجمان اور شارح ہیں، وہ حضرات جمع کرنے کی جو وضاحت اور طریقہ بیان کررہے ہیں، دوسری روایتوں میں آئے ہوئے جمع کے لفظ سے وہی مراد ہوگی،مذکورہ حدیث نمبر۷،۸سے سوال میں پیش کردہ بخاری کی احادیث کی تشریح بھی ہوجاتی ہے کہ بخاری کی روایتوں میں جمع کرنے سے اسی طرح کی جمع مراد ہے، ان کے علاوہ اور بھی روایات ہیں، مثلاً نسائی کی روایت میں بتلایا کہ سفر میں اس طرح جمع کیا جاتا ہے اور اس کو رسول اللہBکی طرف منسوب کیا، رہی معاذبن جبل کی روایت جو شارح نے پیش کی ہے اولاً تو وہ مذکورہ احادیث اور قرآنی آیت کے خلاف ہے؛ کیوں کہ اس میں وقت سے پہلے پڑھنے کا ذکر ہے، دوسرے یہ کہ حاکم شہید نے کہا کہ :یہ حدیث موضوع ہے، معاذ بن جبلکے نیچے کے راوی ابو الطفیل ہیں، ان سے اس حدیث کو سوائے یزید بن حبیب کے اور کوئی راوی بیان نہیں کر رہے ہیں، اور معاذ بن جبل کے شاگردوں میں بھی، ابو الطفیل کے علاوہ کسی نے بھی اس روایت کو نقل نہیں کیا۔

    قال الحاکم في علوم الحدیث :ہذا شاذ الإسناد والمتن ، وأئمة الحدیث إنما سمعوہ تعجبامن إسنادہ ومتنہ ،قال: فنظرنا فإذا الحدیث موضوع(۹)، وقد بسط الکلام في حدیث معاذ ہذا، ابن امیر الحاج في غنیة المستملي قبیل فصل فی صلوٰة الجمعة(۵۰۸)۔

    وقال أبو داوٴد :”لیس في تقدیم الوقت حدیث قائم“کذا في عمدة القاري شرح البخاري:۳/۵۶۹۔ نیز حدیثِ معاذ کا مفہوم مذکورہ بالا احادیث اورآیت قرآنی کے مفہوم اور دلالت کے خلاف ہونے کے ساتھ اُس مشہور شرعی اصول کے بھی خلاف ہے کہ نماز کا وقت نماز کے لیے شرط یا سبب ہے ،اس کے آنے سے پہلے نماز پڑھنا جائز نہیں ہے (۱۰) ۔

    مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ ( ۱)جن روایتوں میں جمع کا لفظ آیا ہے اس سے مراد جمع صوری ہے،(۲)جمع تقدیم صراحةً کسی بھی صریح صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے ۔

    رہی حدیث نمبر ۵،۶تو اس میں بلا عذر جمع کرنے کو گناہ قرار دیا جا رہا ہے،کیوں کہ بلا عذر جمع صوری بھی کراہت سے خالی نہیں، حنفیہ کے یہاں اس سے مراد جمع تاخیر ہے، جو عذر کی صورت میں جائز ہے ،جیسا کہ صاحب رد المحتار نے لکھا ہے : المسافر إذا خاف اللصوص أو قطاع الطریق ولا ینتظرہ الرفقة جاز لہ تاخیر الصلوة؛ لأنہ بعذر(۱۱)، قال صاحب إعلاء السنن: فجمع التاخیر بین الصلٰوتین بعذر یجوز عند الحنفیة أیضا(۱۲)۔

    جب کہ امام مالک، احمد، شافعی رحمہم اللہ جمع تقدیم کو بھی عذر میں جائز قرار دیتے ہیں؛ لیکن عذر کی تعیین میں ان کے درمیان بڑا اختلاف ہے کہ جمع کے سلسلے میں کون سا عذر معتبر ہے ،کسی نے سفر کا اعتبار کیا،کسی نے بارش کو عذر قرار دیا ،کسی نے یہ کہا کہ نماز ادا کرنے میں مشقت وضعف ہو تو اس عذر سے جمع تقدیم کرسکتے ہیں۔

    خلاصہ یہ کہ امام بخاریکی مذکورہ تینوں روایتوں کی تشریح ہم خود کرنے کے بجائے مذکورہ بالاحدیث نمبر: ۷،۸میں اس کی جو شرح موجود ہے، اس کو اختیار کریں، جیسا کہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمةاللہ علیہ نے انہیں حدیثوں کی روشنی میں جمع صوری کو اختیار فرمایا ہے، جس سے قرآن شریف کی آیت پر بھی عمل ہوجا تا ہے اور احادیث بھی معمول بہا ہوجاتی ہیں، اس کے بر خلاف دیگر ائمہ کرام کے طرز عمل سے ایک حدیث معمول بہا بنتی ہے، دوسری تمام حدیثیں اور آیت کریمہ متروک ہوجاتی ہیں۔

     سوال نامے میں”مسک الختام“کے حوالے سے ابن مسعود tکی جو روایت، محلی شرح موطأ سے نقل کی گئی ہے، وہ ان کی پہلے ذکر کردہ روایت /۴سے متعارض نہیں ہے؛کیوں کہ اس روایت میں مراد جمع حقیقی ہے، جیسا کہ مزدلفہ اور عرفہ میں ہوتا ہے اورمحلی میں ذکر کردہ روایت سے مراد جمع صوری ہے، شارح نے اپنی ابلہی ونادانی سے ابن مسعود tپر اتنا بڑا الزام واتہام عائد کردیا کہ ”پہلا بیان نسیان کی وجہ سے ہواہے “ فإلی اللّٰہ المشتکی، اور حاکم شہید نے علوم الحدیث میں حضرت معاذ بن جبل کی روایت کے سلسلے میں جو بات کہی ہے، اس کو مکرر پیش نظر کرلیں ”ہذا شاذ الاسناد والمتن وأئمّة الحدیث إنما سمعوہ تعجبا من إسنادہ ومتنہ قال فنظرنا فإذالحدیث موضوع“۔

    آپ کے سوالات کے جوابات بالترتیب درج ذیل ہیں :

    (۱)حدیث صحیح ہے، لیکن حدیث کا مصداق جمع تقدیم نہیں،بلکہ اس سے مراد جمع صوری ہے ۔

    (۲)جواب تفصیل سے گزر گیا ۔

    (۳)پہلے یا بعد میں ناز ل ہونے کا کوئی اثر اس مسئلے پر نہیں پڑتا ،آیت قرآنی اپنے معنی میں حجت قطعیہ ہے اور احادیثِ نبویہ اس کی تفسیر ہیں اور آثارِ صحابہ ان کی تشریح وتوضیح۔ وبعض التفصیل في إعلاء السنن:۲/۸۲، وقد أطال شراح الحدیث والفقہاء الکلام علی ہذا المبحث وأحاطوا البحث بجمیع جہاتہ، وقد ذکرت نبذةً منہا بتوفیق اللّٰہ وعونہ ، علیہ توکلت وإلیہ أنیب۔فقط واللہ تعالیٰ اعلم

    کتبہ الاحقرزین الاسلام قاسمی# الٰہ آبادی نائب مفتی u ۲ /ذی الحجہ/ ۱۴۲۸     

    الجواب صحیح: حبیب الرحمن عفا اللہ عنہ ،محمد ظفیر الدین غفرلہ

    جواب مفصل ومدلل ہے، اور ایک خاص نکتہ یہ ملحوظ رہنا چاہیے کہ امام بخاری رحمہ اللہ جمع حقیقی کے قائل نہیں، نہ جمع تقدیم کے اور نہ جمع تاخیر کے، ان کے نزدیک جمع کی تمام روایات جمع صوری پر محمول ہیں، یہی رائے حنفیہ کی ہے، اور امام بخاری رحمہ اللہ کی عادت یہ ہے کہ وہ اپنی ہی رائے کے موافق روایات لاتے ہیں، دوسری رائے کے دلائل سے اغماض کرتے ہیں یا غیرمحل میں لاتے ہیں۔

    اور اس کی دلیل کہ امام بخاری رحمہ اللہ جمع حقیقی کے قائل نہیں: یہ ہے کہ انھوں نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کو کنڈم کیا ہے جو جمع تقدیم وتاخیر میں صریح ہے، اور وہی قائلین جواز کی واحد دلیل ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: میں نے قتیبہسے پوچھا : جب آپ نے یہ حدیث لیث بن سعد سے لکھی تھی تو آپ کے پاس کون بیٹھا تھا، انہوں نے بتایا کہ خالد مدائنی بیٹھا تھا، امام بخاری نے فرمایا: چوری پکڑی گئی، خالد مدائنی اساتذہ کی حدیثوں میں اضافہ کیا کرتا تھا یعنی مفصل حدیث میں جو تفصیل ہے وہ قتیبہ کی نظر بچا کر ان کی کاپی میں خالد مدائنی نے لکھ دی ہے، ورنہ یہ حدیث در حقیقت مجمل ہے اور وہ مسلم شریف میں ہے۔

    پس سائل نے جو امام بخاری رحمہ اللہ کی باب کی حدیثوں سے جو جمع حقیقی پر استدلال کیا وہ توجیہ القول بما لا یرضی بہ قائلہ کے قبیل سے ہے۔ واللہ اعلم

                                                         حررہ : سعید احمد عفااللہ عنہ پالن پوری

    حواشی

    -------------------

    (۱)منسلکہ عکسی مضمون

    سفر میں نمازوں کو ملا کر پڑھنا

    (ترجمہ بخاری شریف جلد دوم : مولانا محمد دا وٴد راز)

               ترجمہ:(۱۱۰۶) ہم سے علی بن عبد اللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ، انھوں نے کہا کہ میں نے زہری سے سنا ،انہوں نے سالم سے اور انہوں نے اپنے باپ عبد اللہ بن عمر سے کہ نبی اکرم Bکو اگر سفر میں جلد چلنا منظور ہوتا تو مغرب اور عشاء ایک ساتھ ملا کر پڑھتے ۔

               ترجمہ:(۱۱۰۷)اور ابراہیم بن طہمان نے کہاکہ ان سے حسین معلم نے بیان کیا ،ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا ،ان سے عکرمہ نے بیان کیا اور ان سے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ Bسفر میں ظہر وعصر کی نماز ایک ساتھ ملا کر پڑھتے، اسی طرح مغرب اور عشاء کی بھی ایک ساتھ ملا کر پڑھتے تھے۔

               ترجمہ:(۱۱۰۸)اور ابن طہمان ہی نے بیان کیا کہ ان سے حسین نے، ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے، ان سے حفص بن عبید اللہ بن انس نے اور ان سے انس بن مالک tنے بیان کیا کہ نبی کریم Bسفر میں مغرب اور عشاء ایک ساتھ ملا کر پڑھتے تھے۔ اس روایت کی متابعت، علی بن مبارک اور حرب نے یحییٰ سے کی ہے، یحییٰ حفص سے اور حفص انس سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم Bنے (مغرب اور عشاء )ایک ساتھ ملا کر پڑھی تھیں ۔

               تشریح:امام بخاریجمع کا مسئلہ، قصر کے ابواب میں اس لیے لائے کہ جمع بھی گویا ایک طرح کا قصر ہی ہے،سفر میں ظہر، عصر اور مغرب وعشاء کا جمع کرنا اہلِ حدیث اور امام احمد اور امام شافعی اور ثوری اور اسحاق سب کے نزدیک جائز ہے، خواہ جمع تقدیم کرے :یعنی ظہر کے وقت عصر اور مغرب کے وقت عشاء پڑھ لے، خواہ جمع تاخیر کرے: یعنی عصر کے وقت ظہر اور عشاء کے وقت مغرب بھی پڑھ لے، اس بارے میں مزید تفصیل مندرجہ ذیل احادیث سے معلوم ہوسکتی ہے۔

    عن معاذ بن جبل رضی اللّٰہ عنہ قا ل: کان النبي - صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم - في غزوة تبوک، إذا زاغت الشمس قبل أن یرتحل جمع بین الظہر والعصر وإن ارتحل قبل أن تزیغ الشمس أخّر الظہر حتی ینزل للعصر، وفي المغرب مثل ذٰلک إذا غابت الشمس قبل أن یرتحل جمع بین المغرب والعشاء وإن ارتحل قبل أن تغیب الشمس أخّر المغرب حتی ینزل للعشاء ثم جمع بینہما۔رواہ أبو داوٴد والترمذي وقال: ہذا حدیث حسن غریب ۔یعنی معاذ بن جبل کہتے ہیں کہ غزوہ تبوک میں آں حضرتBاگر کسی دن کو چ کرنے سے پہلے سورج ڈھل جاتا تو آپ ظہر اور عصر ملاکر پڑھتے (جسے جمع تقدیم کہا جاتا ہے )، اور اگر کبھی آپ کا سفر سورج ڈھلنے سے پہلے ہی شروع ہو جاتا تو ظہر اور عصر ملا کر پڑھتے (جسے جمع تاخیر کہا جاتا ہے)، مغرب میں بھی آپ کایہی عمل تھا، اگر کوچ کرتے وقت سورج غروب ہو چکا ہوتا تو آپ مغرب اور عشاء ملا کر پڑھ لیتے اور اگر سورج غروب ہونے سے قبل ہی سفر شروع ہوجاتا تو پھر مغرب کو موٴخر کرکے عشاء کے ساتھ ملا کر ادا کرتے۔ مسلم شریف میں بھی یہ روایت مختصر مروی ہے کہ آں حضرتBغزوہٴ تبوک میں ظہر اور عصر اور مغرب اور عشاء ملا کر پڑھ لیا کرتے تھے ۔

    ایک اور حدیث حضرت انس سے مروی ہے، جس میں مطلق سفر کا ذکر ہے اور ساتھ ہی حضرت انس یہ بھی بیان فرماتے ہیں ”کان رسول اللّٰہ - صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم - إذا ارتحل قبل أن تزیغ الشمس أخّر الظہر إلی وقت العصر۔الحدیث“یعنی سفر میں آنحضرت Bکا یہی معمول تھا کہ اگر سفر سورج ڈھلنے سے قبل شروع ہوتا، تو آپ ظہر کو عصر میں ملا لیا کرتے تھے اور اگر سورج ڈھلنے کے بعد آپ سفر کرتے تو ظہر کے ساتھ عصر ملا کر سفر شروع کرتے تھے ۔

               مسلم شریف میں حضرت ابن عباسسے بھی ایسا ہی مروی ہے، اس میں مزید یہ ہے کہ”قال سعید فقلت لابن عباس: ما حملہ علی ذلک، قال: أراد أن لا یحرج أمتہ (رواہ مسلم:۲۴۶) یعنی سعید نے حضرت ابن عباسسے اس کی وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا: آپBنے یہ اس لیے کیا تاکہ امت تنگی میں نہ پڑجائے ۔

    امام ترمذی فرماتے ہیں کہ اس بارے میں حضرت علی اور انس اور عبد اللہ بن عمر اور حضرت عائشہ اور ابن عباس اور اسامہ بن زید اور جابرث سے بھی مرویات ہیں اور امام شافعی اورامام احمد اور اسحاق رحمہم اللہ بھی یہی کہتے ہیں کہ سفرمیں دو نمازوں کا جمع کرنا۔ خواہ جمع تقدیم ہو یا تاخیر۔ بلا خوف وخطر جائز ہے۔

               علامہ نووینے شرح مسلم میں امام شافعیسے اور اکثر لوگوں کا قول نقل کیا ہے کہ سفر طویل میں جو ۴۸/ میل ہاشمی پر بولا جاتا ہے ، جمع تقدیم وجمع تاخیر ہر دونوں طورپر جمع کرنا جائز ہے اور چھوٹے سفر کے بارے میں امام شافعیکے دو قول ہیں اور ان میں بہت صحیح قول یہ ہے کہ جس سفر میں نماز کا قصر کرنا جائز نہیں، اس میں جمع بھی جائز نہیں ہے۔ علامہ شوکانی درر البہیہ میں فرماتے ہیں کہ مسافر کے لیے جمع تقدیم اور تاخیر ہر دو طور پر جمع کرنا جائز ہے ؛ خواہ اذان اور اقامت سے ظہر میں عصر کو ملائے یا عصر کے ساتھ ظہر ملائے، اس طرح مغرب کے ساتھ عشاء پڑھے یا عشاء کے ساتھ مغرب ملائے، حنفیہ کے ہاں سفر میں جمع کر کے پڑھنا جائز نہیں ہے، ان کی دلیل حضرت عبد اللہ بن مسعودtوالی روایت ہے جسے بخاری اور مسلم اور ابوداوٴد اور نسائی نے روایت کیا ہے کہ میں نے مزدلفہ کے سوا کہیں نہیں دیکھا کہ آں حضرت Bنے دو نمازیں ملا کر ادا کی ہوں۔

               اس کا جواب صاحب” مسک الختام“نے یوں دیا ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود tکا یہ بیان ہمارے مقصود کے لیے ہرگز مضر نہیں ہے کہ یہی عبد اللہ بن مسعودtاپنے اس بیان کے خلاف بیان دے رہے ہیں جیسا کہ محدث سلام اللہ نے محلّی شرح موٴطا امام مالکمیں مسند ابی سے نقل کیا ہے کہ ابو قیس ازدی کہتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن مسعودtنے فرمایا کہ آں حضرتBسفر میں دو نمازوں کو جمع فرمایا کرتے تھے، اب ان کے پہلے بیان میں نفی ہے اور اس میں اثبات ہے، اور قاعدہ مقررہ کی رو سے نفی پر اثبات مقدم ہوتا ہے؛ لہٰذا ثابت ہوا کہ ان کا پہلا بیان محض نسیان کی وجہ سے ہے، دوسری دلیل یہ دی جاتی ہے کہ اللہ پاک نے قرآن مجید میں فرمایا: ”اِنَّ الصَّلوٰةَ کَانَتْ عَلٰی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتٰبًا مَوْقُوْتًا“(سورةالنساء،آیت: ۱۰۳) یعنی نماز مومنوں پر وقت مقررہ میں فرض ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ آں حضرتBقرآن مجید کے مفسر اول ہیں اور آپBکے عمل سے نماز میں جمع ثابت ہے۔انتہیٰ

    (۲) اعلم أن أصول الشرع ثلاثة، والمراد بہا أي بالأصول :الأدلة: الکتاب والسنة وإجماع الأمة، والأصل الرابع القیاس (نور الانوار :۷، بحث أدلة الشرع وأصولہ، ط:یاسر ندیم)۔

    (۳) آثار السنن للنیموي:۲/۷۵،کتاب الصلاة، باب النہي عن الجمع في الحضر: أصح المطابع لکنئو۔

    (۴)أخرجہ مسلم فی صحیحہ : رقم: ۶۸۱، باب قضاء الصلاة الفائتة۔

    (۵) مصنف عبدالرّزّاق، باب من نسي صلاة الحضر و الجمع، رقم: ۴۴۲۰۔

    (۶) أخرجہ أبوداوٴد بمعناہ، باب الصلاة بجمع، رقم: ۱۹۳۴۔

    (۷) مصنف عبد الرزاق، باب المواقیت، رقم: ۲۰۳۵۔

    (۸) السنن الکبری للبیہقي، رقم: ۵۵۶۰۔

    (۹)معرفة علوم الحدیث، ذکر النوع الثامن والعشرین۔

    (۱۰) وسببہا ترادف النعم، ثم الخطاب، ثم الوقت (الدر مع الرد: ۲/۱۰، کتاب الصلوٰة)

    (۱۱) الدر مع الرد: ۲/۴۶،کتاب الصلوة، قبیل باب الأذان۔

    (۱۲) إعلاء السنن :۲/۸۲أبواب الصلاة، ط:إدارة العلوم پاکستان۔

    -------------------------


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند