• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 174627

    عنوان: مغرب میں بے عذر یا بلا عذر تاخیر کرنے کا حکم اور جلد گھر پہنچنا عذر ومجبوری میں داخل ہے یا نہیں؟

    سوال: میرے آفس سے چھٹی کے بعد مغرب کی نماز کا وقت راستے میں ہو جاتا ہے۔آفس کی وین میں مجھ سمیت آٹھ لوگ اور ہیں۔میں ڈرائیور کو کہ کر نماز کے لئے گاڑی رکواتا ہوں۔کمپنی کی طرف سے نماز کے لئے گاڑی رکوانے کی اجازت ہے۔ باقی لوگ گھر کے قریب پہنچ کر نماز پڑھنا چاہتے ہیں۔اور میرے رکوانے کی وجہ سے ناراض ہوتے ہیں مغرب کا وقت پیچھے آنے کے باعث گھر پہنچتے پہنچتے بہت اندھیرا ہوجاتا ہے۔کچھ کہتے ہیں کہ مغرب کا وقت عشاء تک ہے۔ سوال۔ کیا ٹریفک جام ہو اور مسجد دور ہو تو جماعت نکل جانے کی صورت میں نماز کب تک ادا کی جاسکتی ہے؟ سوال۔ کیا جان بوجھ کرگھر کے قریب پہنچ کر ہی نماز پڑھنی چاہئے؟ سوال۔ کیا گاڑی میں موجود کسی شخص کے جلد گھر پہنچنے کی مجبوری کے باعث نماز میں تاخیرکرسکتے ہیں؟

    جواب نمبر: 174627

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:232-38T/N=4/1441

    (۱): اگر آدمی اتفاقاً کبھی جام میں پھنس جائے اور مسجد دور ہو کہ گاڑی سے اترکر مسجد تک پیدل جانا دشوار ہو اور آس پاس بھی وضو کرکے نماز پڑھنے کی کوئی جگہ نہ ہو تو ٹریفک سے نکل کر جب موقعہ ملے تو پہلی فرصت میں نماز (مغرب)ادا کرلے، موقعہ ملنے کے بعد مزید تاخیر نہ کرے۔

    (۲): مغرب کی نماز اول وقت میں ادا کرنا افضل ومسنون ہے، بلا عذر ومجبوری ۳، ۴/ منٹ کی تاخیر بھی مکروہ تنزیہی ہے۔ اور ستارے اچھی طرح ظاہر ہوجانے تک بلا عذر شرعی نماز موٴخر کرنا مکروہ تحریمی ہے؛ لہٰذا بلا عذر ومجبوری روزانہ مغرب میں تاخیر کرکے گھر کے قریب پہنچ کر ہی مغرب پڑھنا کراہت سے خالی نہیں۔

    قلت:وتکرہ أن یوٴخرھا إذا غابت الشمس ؟قال: نعم (کتاب الأصل، ۱: ۱۲۳،ط: مصر)،قلت:أرأیت المغرب أیوٴخرھا بعد غروب الشمس شیئاً ؟ قال: أکرہ لہ أن یوٴخرھا إذا غربت الشمس، والشتاء والصیف سواء (المصدر السابق، ص: ۱۲۴)، فأما صلاة المغرب فالمستحب تعجیلھا في کل وقت وقد بینا أن تأخیرھا مکروہ ، وکان عیسی بن أبان رحمہ اللہ تعالی یقول: الأولی تعجیلھا للآثار ولکن لا یکرہ التأخیر مطلقاً ألا تری الخ (المبسوط للسرخسي، ۱: ۱۴۷، ط: دار المعرفة، بیروت)، وبہ نقول: إنہ یکرہ تأخیر المغرب بعد غروب الشمس إلا بقدر ما یستبریٴ فیہ الغروب رواہ الحسن عن أبي حنیفة رحمھا اللہ تعالی لقولہ صلی اللہ علیہ وسلم: لا تزال أمتي بخیر ما عجلوا المغرب وأخروا العشاء الخ (المصدر السابق ص: ۱۴۴)، تاخیر المغرب مکروہ إلا بعذر السفر أو بأن کان علی المائدة ، البدایة بصلاة المغرب أولی من صلاة الجنازة (الفتاوی السراجیة، ص: ۵۷، ط: مکتبة الاتحاد دیوبند)، وتأخیرہ قدر رکعتین یکرہ تنزیھا (سکب الأنھر مع المجمع، ۱: ۲۹، ط: دار الکتب العلمیہ بیروت)، ومثلہ فی الدر المختار (مع رد المحتار، ۲:۲۹، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، وفی الحلبة بعد کلام: والظاھر أن السنة فعل المغرب فوراً الخ (رد المحتار، ۲: ۲۷)، إلا فی المغرب فیسکت قائماً قدر ثلاث آیات قصار( الدر المختار مع رد المحتار، ۲:۵۶)، ویستحب تعجیل صلاة المغرب صیفاً وشتاء ولا یفصل بین الأذان والإقامة فیہ إلا بقدر ثلاث آیات أو جلسة خفیفة لصلاة جبریل علیہ السلام بالنبي صلی اللہ علیہ وسلم بأول الوقت فی الیومین الخ (مراقی الفلاح مع حاشیة الطحطاوي علیہ، ص: ۱۸۳، ط: دار الکتب العلمیة بیروت)، قولہ: ” ولا یفصل بین الأذان والإقامة الخ“: ولو بمقدار صلاة رکعتین کرہ ککراھة صلاة رکعتین قبلھا وما فی القنیة من استثناء القلیل یحمل علی ما ھو الأقل من قدرھما توفیقاً بین کلامھم کما فی النھر عن الفتح (حاشیة الطحطاوي علی المراقي) وانظر تبیین الحقائق (۱: ۸۴، ط: مکتبة إمدادیة ملتان) وفتح القدیر (۱: ۳۱۸، ط: مصر) وغیرھما من کتب المذھب وفتاوی دار العلوم دیوبند (۲: ۳۷- ۳۹، رقم السوٴال:۲۵، ط: مکتبة دار العلوم دیوبند) أیضاً۔

    (۳): جب کمپنی کی طرف سے راستہ میں گاڑی رکواکر نماز پڑھنے کی اجازت ہے تو مغرب کا وقت ہونے پر راستہ ہی میں نماز پڑھ لینی چاہیے۔ گھر جلد پہنچنے کی فکر میں مغرب میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے؛ کیوں کہ گھر جلد پہنچنا کوئی مجبوری نہیں ہے۔ اور جب نماز کے لیے کمپنی کی طرف سے گاڑی رکوانے کی اجازت ہے تو آپ ساتھیوں کی ناراضگی کی فکر نہ کریں؛ بلکہ انھیں بھی اول وقت مغرب پڑھنے کی ترغیب دیدیا کریں ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند