عبادات >> صلاة (نماز)
سوال نمبر: 174097
جواب نمبر: 174097
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:138-119/N=3/1441
(۱): نماز میں رکوع سجدہ وغیرہ سکون واطمینان کے ساتھ ادا کرنا ایک اہم ترین سنت ہے۔ اگر نماز میں رکوع سجدہ وغیرہ اطمینان کے ساتھ نہ ادا کیا جائے؛ بلکہ کوے کے چونچ مارنے کی طرح جلدی جلدی ادا کیا جائے تو نماز ناقص ومکروہ ہوتی ہے اور نماز کا ثواب بھی گھٹ جاتا ہے ، آدمی جب باقاعدہ وقت نکال کر نماز کے لیے مسجد آتا ہے تو اُسے اچھی سے اچھی نماز پڑھنی چاہیے؛ تاکہ نمازکا پورا ثواب ملے، محض چند منٹ بچانے کے لیے عجلت وجلد بازی کے ساتھ نماز پڑھ کر نماز ناقص کرنا اور کم ثواب پر راضی ہونا عقل مندی نہیں ہے۔
عن أبي مسعود الأنصاريقال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: لا تجزیٴ صلاة الرجل حتی یقیم ظھرہ في الرکوع والسجود ، رواہ أبو داود والترمذي والنسائي وابن ماجة والدارمي، وقال الترمذي: ھذا حدیث حسن صحیح (مشکاة المصابیح، کتاب الصلاة، باب الرکوع، الفصل الثاني، ص: ۸۲، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)، عن أبي قتادةقال؛ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: أسوأ الناس سرقة الذي یسرق من صلاتہ، قالوا: یا رسول اللہ! وکیف یسرق صلاتہ؟ قال: لا یتم رکوعہ ولا سجودہ، رواہ أحمد (المصدر السابق، ص: ۸۳)، عن عبد الرحمن بن شبلقال: نھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن نقرة الغراب الحدیث رواہ أبو داود والنسائي والدارمي (المصدر السابق، باب السجود وفضلہ، الفصل الثالث، ص: ۸۴)، عن طلق بن علي الحنفيقال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: لا ینظر اللہ عزوجل إلی صلاة عبد لا یقیم فیھا صلبہ بین خشوعھا وسجودھا، رواہ أحمد (المصدر السابق)۔وتعدیل الأرکان أي: تسکین الجوارح قدر تسبیحة في الرکوع والسجود، وکذا في الرفع منھما علی ما اختارہ الکمال الخ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاة، ۱۸۴، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔
(۲): اللہ تعالی آپ کے جملہ مقاصد حسنہ میں کام یابی عطا فرمائیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند