• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 173126

    عنوان: كرسی پر بیٹھ كر نماز پڑھنے والے كے لیے قیام اور ركوع كا مسئلہ

    سوال: فالج کی وجہ سے میں زمین پر نہیں بیٹھ سکتا۔ کرسی پر بیٹھ کر اشارے سے سجدہ کرتا ہوں۔ قیام اور رکوع حسبِ معول کھڑے ہو کر کرتا ہوں۔ اس سلسلے میں ذیل میں لکھے سوالات کے جوابات کا ملتجی ہوں: 1۔ کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنے والا کیا سنت اور نوافل ادا کرتے وقت بھی کھڑے ہو کر قراء ت کرے یا یہ حکم صرف فرض اور واجب نمازوں کے لئے ہے؟ 2۔ میں نے پڑھا ہے کہ جو شخص زمین پر پیشانی رکھ کر سجدہ کرنے سے معذور ہے اس کے لئے قیام یعنی کھڑے ہو کر قراء ت کرنا ضروری نہیں۔ وہ پوری نماز کرسی پر بیٹھ کر ہی ادا کرے۔ کیا یہ قول درست ہے۔ 3۔ تنہا نماز پڑھنے والا کیا اقامت بھی کہے چاہے حضر میں ہو یا سفر میں۔

    جواب نمبر: 173126

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 39-18T/H=01/1441

    (۱) قیام اور رکوع بذاتِ خود قربت مشروع نہیں ہے، بلکہ سجدہ کے لئے وسیلے کے طور پر مشروع ہیں، لہٰذا جو شخص سجدہ پر قادر نہیں ہے، اس کے لئے ظاہر الروایة یہی ہے کہ وہ بیٹھ کر اشارے سے نماز پڑھے، پس صورت مسئولہ میں ظاہر الروایة یہی ہے کہ آپ تمام نمازیں کرسی پر بیٹھ کر اشارہ سے رکوع وسجدہ کرکے ادا کریں، قیام کی ضرورت نہیں ہے لیکن اگر قیام رکوع کھڑے ہوکر کیا اور سجدہ کرسی پر بیٹھ کر اشارہ سے کیا تب بھی نماز ہو جائے گی۔ وإن تعذرا لیس تعذرہما شرطاً بل تعذر السجود کافٍ لا القیام أومأ قاعداً، قال الشامی: وفی الذخیرة: رجل بحلقہ خراج إن سجد سال وہو قادر علی الرکوع والقیام والقراء ة یصلي قاعداً یوٴمي، ولو صلی قائماً برکوع وقعد وأومأ بالسجود أجزأہ ، والأول أفضل؛ لأن القیام والرکوع لم یشرعا قربة بنفسہما ، بل لیکونا وسیلتین إلی السجود (شامی: ۲/۵۶۷، ط: زکریا دیوبند)

    (۲) جو آپ نے سنا ہے عام کتب فتاویٰ میں یہی مسئلہ ہے، اور ظاہر الروایة بھی یہی ہے۔

    نوٹ: اس مسئلہ میں فقہاء کا اختلاف ہے اس لئے مناسب یہ ہے کہ قیام و رکوع پر قادر شخص قیام اور رکوع پوری طرح یعنی کھڑے ہوکر ادا کرے اگرچہ وہ سجدہ پر قادر نہ ہو۔

    (۳) منفرد کے لئے سفر و حضر میں اذان و اقامت دونوں مستحب ہے اور اگر سفر میں صرف اقامت پر اکتفاء کر لیا تب بھی جائز ہے کیوں کہ سفر میں اذان و اقامت دونوں کا ترک مکروہ ہے۔ وکرہ ترکہما معاً لمسافر ولو منفرداً ․․․․․․بخلاف مصل ولو بجماعة في بیتہ بمصراً وقربة لہا مسجد، فلا یکرہ ترکہما إذ أذان الحي یکفیہ لأن أذان المحلة وإقامتہا کأذانہ وإقامتہ (شامی: ۲/۶۳، ط: زکریا دیوبند)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند