• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 172169

    عنوان: سجدہ کرنے کی مقدار کتنی ہونی چاہیے؟

    سوال: سجدہ کرنے کی مقدار کتنی ہونی چاہئے ، لمبے سجدے کا کیا مطلب ہے، کچھ نمازی دری سے آگے سجدے میں اپنی پیشانی لگاتے ہیں یانی لمبا سجدا کرتے ہیں، ایسا کرنا جائز ہے یا نہیں؟

    جواب نمبر: 172169

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:1040-846/sn=12/1440

    نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب تنہا نماز پڑھتے تھے تو طویل سجدہ کرتے یعنی اس میں تسبیحات اور دعائیں خوب یڑھتے، یہی لمبا سجدہ ہے نیز آپ علیہ الصلاة و السلام کی عادتِ مبارکہ یہ تھی کہ آپ کشادہ سجدہ کرتے یعنی اتنا کھل کر سجدہ کرتے کہ ہاتھوں کو زمین سے اور پیٹ کو رانوں سے الگ رکھتے، اگر بکری کا بچہ بیچ سے نکلنا چاہے تو نکل جائے۔ آدمی کو چاہیے کہ مذکورہ بالا طریقے پر سجدہ کرے، یہی مسنون طریقہ ہے، طویل سجدے کا مطلب بہ تکلف دراز ہوکر دری سے آگے سر رکھنا نہیں ہے۔

     عن میمونة، أن النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان إذا سجد، جافی بین یدیہ، حتی لو أن بہمة أرادت أن تمر تحت یدیہ مرت.(سنن أبی داود 1/ 236)والحاصل أن فی تثلیث التسبیح فی الرکوع والسجود ثلاثة أقوال عندنا، أرجحہا من حیث الدلیل الوجوب تخریجا علی القواعد المذہبیة، فینبغی اعتمادہ کما اعتمد ابن الہمام ومن تبعہ روایة وجوب القومة والجلسة والطمأنینة فیہما کما مر. وأما من حیث الروایة فالأرجح السنیة لأنہا المصرح بہا فی مشاہیر الکتب، وصرحوا بأنہ یکرہ أن ینقص عن الثلاث وأن الزیادة مستحبة بعد أن یختم علی وتر خمس أو سبع أو تسع ما لم یکن إماما فلا یطول .(الدر المختار وحاشیة ابن عابدین (رد المحتار) 2/ 198،ط: زکریا)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند