عبادات >> صلاة (نماز)
سوال نمبر: 171800
جواب نمبر: 171800
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:954-123T/N=12/1440
(۱): اگر مقتدی مسبوق نہیں ہے تو امام کی طرح وہ بھی ایک طرف سلام پھیر کر سجدہ سہو کرے گا۔ اور اگر مسبوق ہے تو وہ صرف امام کے ساتھ سجدہ سہو کرے گا، امام کے ساتھ سجدہ سہو سے پہلے والا سلام نہیں پھیرے گا۔ اور اگر مسبوق نے یہ جانتے ہوئے کہ ابھی اس کی ایک یا چند رکعتیں باقی ہیں، امام کے ساتھ سجدہ سہو سے پہلے والا سلام پھیردیا تو اس کی نماز فاسد ہوجائے گی۔
ثم المسبوق إنما یتابع الإمام في السہو دون السلام؛ بل ینتظر الإمام حتی یسلم، فیسجد، فیتابعہ في سجود السہو لا في سلامہ، وإن سلم فإن کان عامداً تفسد صلاتہ، وإن کان ساھیاًلا تفسد، ولا سھو علیہ؛ لأنہ مقتد، وسھو المقتدي باطل (بدائع الصنائع، ۱: ۷۲۰، ط؛ دار الکتب العلمیة بیروت)، وفیہ-في شرح المنیة-: ولو سلم علی ظن أن علیہ أن یسلم فھو سلام عمد یمنع البناء (رد المحتار، کتاب الصلاة، باب سجود السھو، ۲: ۵۴۷، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔
(۲): اصح اور مفتی بہ قول کے مطابق تعوذ، قراء ت کی سنت ہے اور اس کے تابع ہے ؛ لہٰذا جب مقتدی پر قراء ت نہیں ہے تو وہ تعوذ بھی نہیں پڑھے گا۔
وتعوذ سراً لقراء ة فیأتي بہ المسبوق عند قیامہ لقضاء ما فاتہ لا المقتدي (تنویر الأبصار مع الدر والرد، کتاب الصلاة، باب صفة الصلاة، ۲: ۱۹۰، ۱۹۱، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، لکن مختار قاضي خان والھدایة وشروحھا والکافي والاختیار وأکثر الکتب ھو قولھما: ”إنہ تبع للقرا ء ة“، وبہ نأخذ، شرح المنیة (رد المحتار، ۲: ۱۹۱)۔
(۳):اگر امام پہلی رکعت کی غلطی کی وجہ سے سجدہ سہو کرے تو مسبوق بھی امام کے ساتھ سجدہ سہو کرے گا، تابع ہونے کی وجہ سے اُس پر بھی سجدہ سہو واجب ہوگا۔ اور اگر وہ غلطی سجدہ سہو کا موجب نہ ہو تو امام اور مقتدی کسی کو کچھ کرنے کی ضرورت نہیں۔
والمسبوق یسجد مع إمامہ مطلقاً سواء کان السھو قبل الاقتداء أو بعدہ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاة، باب سجود السھو، ۲: ۵۴۶۱۹۰، ۵۴۷، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔
(۴): جب مقتدیوں کو امام کے سلام پھیرنے کی اطلاع ہو تو وہ معلوم ہوتے ہی سلام پھیردیں، تاخیر نہ کریں۔
(۵): اگر جہری نماز میں امام نے تین آیتوں سے پہلے لقمہ ملنے پر جہری قراء ت شروع کردی تو سجدہ سہو واجب نہیں؛ ورنہ سجدہ سہو واجب ہوگا۔
والجھر فیما یخافت فیہ للإمام وعکسہ لکل مصل في الأصح، والأصح تقدیرہ بقدر ما تجوز بہ الصلاة في الفصلین (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاة، باب سجود السھو، ۲: ۵۴۵، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، قولہ: ”والأصح الخ“:صححہ في الھدایة والفتح والتبیین والمنیة؛ لأن الیسیر من الجھر والإخفاء لا یمکن الاحتراز عنہ، وعن الکثیر یمکن، وما تصح بہ الصلاة کثیر، غیر أن ذلک عندہ آیة واحدة وعندھما ثلاث آیات، ھدایة (رد المحتار)۔
(۶):اگر امام قرا ت بھول جائے تو اسے چھوڑ کر کوئی دوسری سورت پڑھنا شروع کردے۔ اور اگر کوئی دوسری سورت یاد نہ آئے تو مقتدی لقمہ دیدے؛ تاکہ امام آگے قراء ت جاری کرے۔
(۷): پینٹ عام طور پر پانی پہنچنے سے رکاوٹ ہوتا ہے؛ لہٰذا اگر کسی ہاتھ یا بال وغیرہ میں اس طرح کا پینٹ لگ جائے تو اسے چھڑائے بغیر غسل نہیں ہوگا؛ لہٰذا غسل سے پہلے کسی کیمکل وغیرہ کے ذریعہ اسے چھڑادیا جائے، پھر غسل کیا جائے۔
والثالث -من شروط صحة الوضوء والغسل - زوال ما یمنع وصول الماء إلی الجسد لجرمہ الحائل کشمع وشحم (مراقي الفلاح مع حاشیة الطحطاوي، ص:۶۲،ط: دار الکتب العلمیة بیروت)، ومفادہ عدم الجواز إذا علم أنہ لم یصل الماء تحتہ، قال فی الحلبة: وھو أثبت، قولہ:”إن صلباً“: ……أي إن کان ممضوغا مضغا متأکدا بحیث تداخلت أجزاوٴہ وصار لزوجة وعلاکة کالعجین، شرح المنیة،قولہ: ”وھو الأصح“:صرح بہ في شرح المنیة، وقال:لامتناع نفوذ الماء مع عدم الضرورة والحرج اھ، ولا یخفی أن ھذا التصحیح لا یخالف ما قبلہ (رد المحتار، کتاب الطھارة، ۱: ۲۸۹، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند