• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 170508

    عنوان: سنت اور نوافل پڑھنے كا حكم كیوں ہے؟

    سوال: اللّہ کے نبی نے ہمیشہ اپنی امّت کو آسانیاں فراہم کیں، تو میرا سوال یہ بہت آاتا ہے دماغ میں کہ فرض نماز کے علاوہ یہ سنّت اور نوافل پڑھنے کا حکم کیوں ہے ؟اور اللّہ کے نبی نے کیوں نماز کو اور بڑھا دیا اس کی کیا حکمت ہے ؟

    جواب نمبر: 170508

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:1036-110/LT=10/1440

    فرض نماز ادا کرنے میں جہاں ثواب زیادہ ملتا ہے وہیں اس کے ترک پر گناہ بھی ہوتا ہے ،اور اس میں کرنے یا نہ کرنے کا اختیار نہیں رہتا بلکہ کرنا ضروری ہوتا ہے اسی دوسری مصلحت کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے فرائض کی تعداد کم رکھی گئی ،اس کے بالمقابل سنن اگر موکدہ نہ ہوں یا نوافل ہوں تو ان کے کرنے یا نہ کرنے کا اختیار ہوتا ہے اگر آدمی کرلیتا ہے تو ثواب مل جاتا ہے اور احادیث میں صراحت کے مطابق فرائض میں جوکمی ہوئی ہوگی اس سے اس کی تلافی ہوجائے گی اور نہ کرنے پر گناہ یا عتاب نہیں ہوتا ،اسی طرح بوقتِ ضرورت سننِ مؤکدہ کے ترک کی بھی گنجائش ہوتی ہے؛بہرحال شارع علیہ السلام کے پیشِ نظرامت سے حرج وتنگی کو دور کرنا ہوتا ہے ، حدیث شریف میں ہے :اگر میری امت پر مشقت کا خوف نہ ہوتا تو میں اپنی امت کو ہرنماز کے لیے وضو کا حکم کرتا،اور یہ تو مشاہدہ ہے کہ فرائض کی تعداد اتنی کم ہونے کے باوجود کتنے لوگ اس کا اہتمام کرتے ہیں ،اگر فرائض کی زیادتی ہوتی تو نہ کرنے پر گنہ گار بھی ہوتے ۔

    عن أبی ہریرة -رضی اللہ عنہ- أن رسو ل اللہ -صلی اللہ علیہ وسلم- قال: لو لا أن أشق علی أمتی أو لولا أشق علی الناس لأمرتہم بالسواک مع کل صلاة․ (رواہ البخاری:الجمعة/السواک یوم الجمعة ۱۲۲/۱، رقم الحدیث: ۸۷۷ط:دارالسلام) وَفِی ہَذَا الْحَدِیثِ أَدَلُّ الدَّلَائِلِ عَلَی فَضْلِ السِّوَاکِ وَالرَّغْبَةِ فِیہِ وَفِیہِ أَیْضًا دَلِیلٌ عَلَی فَضْلِ التَّیْسِیرِ فِی أُمُورِ الدِّیَانَةِ وَأَنَّ مَا یَشُقُّ مِنْہَا مَکْرُوہٌ قَالَ اللَّہ عَزَّ وَجَلَّ یُرِیدُ اللَّہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلَا یُرِیدُ بِکُمُ الْعُسْر (التمہید:۱۹۹/۷ط:وزارة عموم الأوقاف والشئوون الاسلامیة/مغرب ) وفی حجة اللہ البالغة:قَوْلہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: " لَوْلَا أَن اشق علی أمتِی لأمرتہم بِالسِّوَاکِ عِنْد کل صَلَاة " أَقُول: مَعْنَاہُ لَوْلَا خوف الْحَرج لجعلت السِّوَاک شرطاللصَّلَاة کَالْوضُوءِ، وَقد ورد بِہَذَا الأسلوب أَحَادِیث کَثِیرَة جدا وَہِی دَلَائِل وَاضِحَة علی أَن لاجتہاد النَّبِی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مدخلًا فِی الْحُدُود الشَّرْعِیَّة، وَأَنَّہَا منوطة بالمقاصد، وَأَن رفع الْحَرج من الْأُصُول الَّتِی بنی عَلَیْہَا الشَّرَائِع.(حجة اللہ البالغة:۵۹۶/۱باب خصال الفطرةوما یتصل بہا،ط:حجاز دیوبند )


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند