• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 169909

    عنوان: نماز کے بعد نعت پڑھنا کیسا ہے؟

    سوال: ہماری مسجد کے امام صاحب ہر عشاء کی نماز کے بعد نعت پڑھتے ہیں جس کے آخر میں جو مصرعہ ہے اس کا ترجمہ ہی ہے "کہ اے نبی ہم لا چا روں کی لا چاری دور فرما اور ہماری دستگیری فرما" کیا یہ کہنا درست ہے ۔اگر نہیں تو کیا اس امام صاحب کے پیچھے نماز پڑ نا درست ہے ؟برائے کرم رہنمائی فرمائیں۔

    جواب نمبر: 169909

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:769-148TSN=10/1440

    بعد نماز نعت پڑھنے کا معمول قابل ترک ہے، ایسا کرنا ثابت نہیں ہے، رہا مذکور فی السوال مصرع تو یہ نبی سے استمداد ہے جو استعانت بالغیر میں شامل ہونے کی وجہ سے جائز نہیں ہے، اگر امام صاحب نا واقفیت کی بنا پر ایسا کرتے ہیں تو انھیں حسنِ اسلوب سے متنبہ کردیا جائے، اگر وہ مصر ہوں تو پھر ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھنا درست نہ ہوگا،مکروہ تحریمی ہوگا۔

    ...الثانی أن الناس قد أکثروا من دعاء غیر اللہ تعالی من الأولیاء الأحیاء منہم والأموات وغیرہم، مثل یا سیدی فلان أغثنی، ولیس ذلک من التوسل المباح فی شیء، واللائق بحال المؤمن عدم التفوہ بذلک وأن لا یحوم حول حماہ، وقد عدّہ أناس من العلماء شرکا وإن لا یَکُنہ، فہو قریب منہ ولا أری أحدا ممن یقول ذلک إلا وہو یعتقد أن المدعو الحی الغائب أو المیت المغیب یعلم الغیب أو یسمع النداء ویقدر بالذات أو بالغیر علی جلب الخیر ودفع الأذی وإلا لما دعاہ ولا فتح فاہ، وفی ذلک بلاء من ربکم عظیم، فالحزم التجنب عن ذلک وعدم الطلب إلا من اللہ تعالی القوی الغنی الفعال لما یرید.(تفسیر الألوسی = روح المعانی 3/ 298)

    ویکرہ تقدیم المبتدع أیضا؛ لأنہ فاسق من حیث الاعتقاد وہو أشد من الفسق من حیث العمل، والمراد بالمبتدع من یعتقد شیئًا علی خلاف ما یعتقدہ أہل السنة والجماعة وإنّما یجوز الاقتداء بہ مع الکراہة إذا لم یکن ما یعتقدہ یؤدی إلی الکفر عند أہل السنة الخ (حلبی کبیری، ص: 515، اشرفی) وانظر: حاشیة الطحطاوی علی المراقی (ص:515، فصل فی بیان الأحق بالإمامة، ط: اشرفی)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند