عبادات >> صلاة (نماز)
سوال نمبر: 169582
جواب نمبر: 169582
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:683-634/N=8/1440
(۱): فرض یا واجب نماز کی نیت اس طرح ہوتی ہے کہ آدمی دل سے اس بات کا پختہ ارادہ کرے کہ میں فلاں فرض نماز(جیسے: ظہر)یا فلاں واجب نماز(جیسے: وتر) ادا کرنے جارہا ہوں، رکعت کی تعداد یا استقبال قبلہ وغیرہ کی نیت ضروری نہیں ہے۔اور نفل یا سنت نماز میں مطلق نماز کی نیت کافی ہے اگرچہ احوط یہ ہے کہ کونسی سنت یا نفل ہے؟ اس کی بھی تعیین کرلی جائے ۔ اور جو نماز امام کے پیچھے پڑھی جائے، اس میں اقتدا کی نیت بھی ضروری ہوتی ہے خواہ وہ نماز فرض یا واجب ہو یا سنت وغیرہ۔
وکفی مطلق نیة الصلاة وإن لم یقل: للہ، لنفل وراتبة وتراویح علی المعتمد؛ إذ تعیینھا بوقوعھا وقت الشروع، والتعیین أحوط، ولا بد من التعیین عند النیة……لفرض أنہ ظھر أو عصر…ولو الفرض قضاء……وواجب أنہ وتر أو نذر أو سجود تلاوة… دون تعیین عدد رکعاتہ لحصولھا ضمناً فلا یضر بالخطإ في عددھا وینوي المقتدي المتابعة الخ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاة، باب شروط الصلاة، ۲: ۹۴- ۹۸، ط مکتبة زکریا دیوبند)، ونیة استقبال القبلة لیست بشرط مطلقاً علی الراجح (المصدر السابق، ص: ۱۰۵)۔
(۲):”سنت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے “ کا مطلب اگر یہ ہو: ”سنت حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی“ تو اس طرح نیت کرنا درست ہے؛ لیکن چوں کہ “ کے لیے “ میں اس معنی کا بھی احتمال ہے کہ یہ نماز حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پڑھی جارہی ہے، جیسے: اللہ کے لیے پڑھی جاتی ہے ؛ اس لیے ” کے لیے“ کی جگہ ” کی“ کہا جائے یا صرف سنت کہا جائے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند