• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 169546

    عنوان: اگر درود شریف شروع کرنے کے بعد یاد آئے کہ سجدہ سہو کرنا ہے تو کیا کرنا چاہیے؟

    سوال: نماز میں واجبات بھول جائے یا یاد نہ رہے، پھر یاد آیا کہ بھول گئے تو سجدہ سہو کرنا ہے ، لیکن سجدہ سہو بھی بھول جائے درود پاک پڑھنا شروع کردے تو کیا کرنا چاہئے؟

    جواب نمبر: 169546

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:673-574/N=7/1440

    ایسی صورت میں درود شریف یا دعائے ماثورہ پڑھتے ہوئے جب بھی یاد آجائے، فوراً سجدہ سہو کرلیا جائے، پھر التحیات، درود شریف اور دعائے ماثورہ پڑھ کر دونوں طرف سلام پھیرکر نماز مکمل کرلی جائے۔

    وقیل: یأتي بالتسلیمتین، وھو اختیار شمس الأئمة وصدر الإسلام أخي فخر الإسلام، وصححہ فی الھدایة والظھیریة والمفید والینابیع کذا في شرح المنیة، قال فی البحر: وعزاہ أي: الثاني فی البدائع إلی عامتھم الخ (رد المحتار، کتاب الصلاة، باب سجود السھو، ۲:۵۴۰، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، ویأتي بالصلاة علی النبي صلی اللہ علیہ وسلم والدعاء فی القعود الأخیر فی المختار، وقیل: فیھما احتیاطاً (الدر مع الرد، کتاب الصلاة، باب سجود السھو ۲: ۵۴۲، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، (ویأتي بالصلاة علی النبي علیہ الصلاة والسلام والدعاء في قعدة السھو ھو الصحیح )کذا فی الھدایة ،وفی البدائع:إنہ الأصح ، وقیل: یأتي بھما فیھما (الدر المنتقی،۱:۲۲۰، ط: دار الکتب العلمیة بیروت)، ولم یذکر حکم الصلاة علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی القعدتین والأدعیة للاختلاف،فصحح فی البدائع والھدایة أنہ یأتي بالصلاة والدعاء في قعدة السھو ؛لأن الدعاء موضعہ آخر الصلاة، ونسبة الأول إلی عامة المشایخ بما وراء النھر وقال: فخر الإسلام: إنہ اختیار عامة أھل النظر من مشایخنا وھو المختار عندنا، واختار الطحاوي أنہ یأتي بھما فیھما،وذکر قاضی خان وظھیر الدین أنہ الأحوط وجزم بہ فی منیة المصلی فی الصلاة ونقل الاختلاف فی الدعاء، وقیل: إنہ یأتي بھما فی الأول فقط وصححہ الشارح معزیا إلی المفید؛ لأنھا للختم (البحر الرائق، ۲:۱۶۵، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، (ویأتي بالصلاة علی النبي صلی اللہ علیہ وسلم والدعاء فی القعود الأخیر)لأنہ محلھما، وقولہ:”فی المختار“ رأي عامة أھل النظر وأھل المذھب وصححہ فی البدائع والھدایة واختار الثاني الطحاوي وجزم بہ في منیة المصلي، وقیل: یأتي بھما فی الأول فقط، وصححہ الشارح معزیاً للمفید، وأکثر التصحیح للأول لکنہ یجوز العمل بأي قول منھما لتصحیحہ (حاشیة الطحطاوي علی الدر،۱:۳۱۰، ط: مکتبة الاتحاد دیوبند)، وانظر الھندیة والنھر الفائق وحاشیة الطحطاوی علی المراقی وإمداد الفتاح وغیرھاأیضاً۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند