• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 168997

    عنوان: جماعت کی نماز ترک کرنے کا حکم

    سوال: میں دہلی میں تیسرے فلور میں رہتاہوں ، اور گڑگاؤں میں کال سینٹر (call center) میں ملازمت کرتاہوں ، زیادہ تر یعنی لگ بھگ اٹھانوے فیصد نماز روم میں ہی پڑھتاہوں ، کیا روم میں بنا کسی عذر کے یا کاہلی کی وجہ سے نماز پڑھنا گناہ ہے؟کیا ایسا کرنے سے صرف جماعت کے ثواب سے محروم رہوں گا یا گناہ بھی ہوگا؟ اگر گناہ ہے تو کیا کبیرہ ے یا صغیرہ ؟

    جواب نمبر: 168997

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:583-516/N=7/1440

    (۱، ۲): فرض نمازوں میں جماعت سنت موٴکدہ، یعنی: واجب کے قریب ہے، بلا عذر شرعی جماعت کے ترک پر اصرارگناہ کبیرہ ہے اور جماعت سے نماز پڑھنا محض ثواب کا کام نہیں ہے؛ بلکہ جماعت چھوڑنے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت مبارکہ سے محرومی کا اندیشہ بھی ہے؛ بلکہ بعض علما کے نزدیک راجح یہ ہے کہ جماعت واجب ہے؛ اس لیے اگر آپ بلا عذر شرعی محض کاہلی کی وجہ سے اکثر وبیشتر نماز بلاجماعت پڑھتے ہیں تو آپ کو ترک جماعت کا گناہ ہوگا ۔ آپ کو چاہیے کہ آپ کے آفس کے قریب جو مسجد ہو، آپ وہاں جاکر نماز باجماعت ادا کیا کریں۔ اور اگر مسجد بہت دور ہو اور آفس میں آپ کی طرح ایک، دو اور نماز پڑھنے والے ہوں تو آپ ان کے ساتھ جماعت کرلیا کریں۔

    والجماعة سنة موٴکدة للرجال … وأقلھا اثنان، …وقیل: واجبة و علیہ العامة أي: عامة مشایخنا وبہ جزم في التحفة وغیرھا، قال في البحر: وھو الراجح عند أھل المذھب، فتسن أو تجب ثمرتہ تظھر في الإثم بترکھا علی الرجال العقلاء البالغین الأحرار القادرین علی الصلاة بالجماعة من غیر حرج، (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاة، باب الإمامة، ۲: ۲۸۷- ۲۹۱، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔

    قولہ:”من غیر حرج“ قید لکونھا سنة موٴکدة أو واجبة فبالحرج یرتفع الإثم ویرخص في ترکھا الخ ونقل عن الحلبي أن الوجوب عند عدم الحرج وفي تتبعھا فی الأماکن القاصیة حرج لا یخفی (رد المحتار)۔

    قولہ: ”وسن موٴکداً“:أي: استنانا موٴکداً بمعنی أنہ طلب طلباً موٴکداً زیادة علی بقیة النوافل، ولھذا کانت السنة الموٴکدة قریبة من الواجب في لحوق الإثم کما فی البحر، ویستوجب تارکھا التضلیل واللوم کما فی التحریر، أي: علی سبیل الإصرار بلا عذر کما في شرحہ (المصدر السابق، کتاب الصلاة، باب الوتر والنوافل، ۲:۴۵۱)۔

    فی التلویح: ترک السنة الموٴکدة قریب من الحرام یستحق حرمان الشفاعة اھ ومقتضاہ أن ترک السنة الموٴکدة مکروہ تحریماً لجعلہ قریباً من الحرام، والمراد بھا سنن الھدی کالجماعة والأذان والإقامة؛ فإن تارکھا مضلل ملوم کما فی التحریر، والمراد الترک علی وجہ الإصرار بلا عذر (المصدر السابق، أول کتاب الحظر والإباحة، ۹: ۴۸۷)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند