• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 166806

    عنوان: جائے ملازمت میں قصر یا اتمام کا مسئلہ

    سوال: میں شہر آگرہ کا رہنے والا ہوں، میں شہر گڑگاؤں میں نوکری کرتا ہوں جو تقریبا دو سو کلومیٹر دور ہے ، مجھے ایک ہی کمپنی میں کام کرتے تقریبا 4 سال ہوگئی ہیں میں یہاں کرئے کے مکان پر رہتا ہوں، میری شادی بھی نہیں ہوئی ہے ، میرا کام فیلڈ کا ہے مجھے کمپنی کے کام سے اکثر دوسرے شہروں میں باہر جانا پڑتا ہے ، مجھے تقریبا ہر 15 دن سے پہلے کوئی نہ کوئی سفر پیش آ جاتا ہے اور اگر کوئی سفر پیش نہیں آتا تو میں پندرہ دن سے پہلے گھر جانے کی نیت رکھتا ہوں، میں نے قصر کی نیت کر رکھی ہے ، کیا ایسا کرنا درست ہے ، تو کیا مجھے قصر نماز پڑھنا پڑے گی یا مجھے مقامی کی طرح پوری نماز پڑھنی پڑے گی۔ مسئلہ بتائیں۔

    جواب نمبر: 166806

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:241-161/N=3/1440

     آگرہ یا کہیں اور سے مسافر ہوکر گڑگاوٴں پہنچنے پر اگر آپ کی نیت مکمل ۱۵/ دن قیام کی نہ ہو تو آپ گڑگاوٴں میں مسافر ہی رہیں گے ، مقیم نہ ہوں گے اور آپ ۴/ رکعت والی نمازوں میں حسب شرائط قصر کریں گے (امداد المفتین، ص: ۳۲۱، ۳۲۲، سوال: ۲۵۱، مطبوعہ: مکتبہ دار العلوم کراچی، فتاوی محمودیہ ۷: ۴۹۱ - ۴۹۴، سوال: ۳۵۸۸- ۳۵۹۱، مطبوعہ: ادارہ صدیق ڈابھیل، فتاوی رحیمیہ جدید، ۵: ۱۷۷، سوال: ۲۲۵، مطبوعہ: دار الاشاعت کراچی، وغیرہ ) ؛ البتہ آگرہ چوں کہ آپ کا وطن ہے؛ اس لیے آگرہ پہنچنے پر آپ فوراً مقیم ہوجائیں گے اگرچہ وہاں آپ کو صرف ایک، دو روز قیام کرنا ہو اور ۴/ رکعت والی نمازیں بھی مکمل ۴/ رکعت پڑھیں گے۔

    فالوطن الأصلي ینتقض بمثلہ لا غیر، وھو أن یتوطن الإنسان في بلدة أخری وینقل الأھل إلیہا من بلدتہ فیخرج الأول من أن یکون وطناً أصلیاً لہ حتی لو دخل فیہ مسافراً لا تصیر صلاتہ أربعاً (بدائع الصنائع، ۱: ۴۹۸، ط: دار الکتب العلمیة بیروت) ، ویبطل وطن الإقامة بمثلہ وبالوطن الأصلي وبإنشاء السفر، والأصل أن الشیء یبطل بمثلہ وبما فوقہ لا بما دونہ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاة، باب صلاة المسافر ۲: ۶۱۴، ۶۱۵، ط: مکتبة زکریا دیوبند) ، من خرج من عمارة موضع إقامتہ قاصداً مسیرة ثلاثة أیام ولیالیھا ……صلی الفرض الرباعي رکعتین …حتی یدخل موضع مقامہ أو ینوي إقامہ نصف شھر بموضع صالح لھا فیقصر إن نوی في أقل منہ أو …بموضعین مستقلین (تنویر الأبصار مع الدر والرد، کتاب الصلاة، باب صلاة المسافر، ۲: ۵۹۹- ۶۰۶) ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند