• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 166606

    عنوان: حرمین یا غیر حرمین میں مثل اول کے بعد عصر کی نماز ادا کرنے کا حکم

    سوال: جب کوئی حنفی شخص حرمین (مکہ مدینہ)میں حج یا دیگر زیارت کے لیے جائے تو وہاں پر عصر کی نماز کی جماعت حنبلی فقہ کے وقت پہ اداہوتی ہے تو کیا حنفی شخص کو باجماعت عصر کی نماز ادا کرنا چاہئے ، حالانکہ احناف کے نزدیک ابھی عصر کا وقت شرع نہیں ہوا ہے یا پھر رک کر جب احناف کے اعتبار سے عصر کے وقت شروع ہوجائے تب نماز کی ادائیگی کرنی چاہئے؟ اور حرمین کے علاوہ اگر کوئی حنفی دیگر علاقے میں ہو وہاں بھی عصر کی نماز شافعی /حنبلی کی وقت کے سے جماعت ہو تو کیا کرنا ہوگا؟

    جواب نمبر: 166606

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:217-156/N=3/1440

     مسجد حرام اور مسجد نبوی میں نماز پڑھنے کی، احادیث میں خاص فضیلت وارد ہوئی ہے؛ اس لیے حرمین شریفین میں مثل اول کے بعد عصر کی نماز باجماعت پڑھ لیناچاہیے، ترک نہیں کرنا چاہیے؛ کیوں کہ بعض احناف نے صاحبین کے قول کے مطابق مثل اول کے بعد عصر کی نماز کے جواز کا فتوی دیا ہے اگرچہ جمہور احناف کا مفتی بہ اور احوط قول یہی ہے کہ مثل ثانی کے بعد عصر کی نماز پڑھی جائے۔ اور حرمین شریفین کے علاوہ کسی اور مسجد میں مثل اول کے بعد عصر کی نماز نہیں پڑھنی چاہیے؛ بلکہ مثل ثانی کے بعد ہی پڑھی جائے اگرچہ اکیلے نماز پڑھنی پڑے؛ کیوں کہ مفتی بہ اور احوط قول یہی ہے۔ اورعام مساجد میں کوئی منصوص فضیلت عارض نہیں ہے۔

    (ووقت الظہر من زوالہ) … (إلی بلوغ الظل مثلیہ) ، وعنہ مثلہ، وہو قولہما وزفر والأئمة الثلاثة، قال الإمام الطحطاوي: وبہ نأخذ، وفي غرر الأذکار: وھو المأخوذ بہ، وفی البرھان: وھو الأظھر لبیان جبریل، وھو نص فی الباب، وفی الفیض: وعلیہ عمل الناس الیوم، وبہ یفتی، (سوی فیٴ یکون للأشیاء قبل (الزوال) (الدر المختار مع رد المحتار، أول کتاب الصلاة، ۲: ۱۴، ۱۵، ط: مکتبة زکریا دیوبند) ، قولہ: ”‘إلی بلوغ الظل مثلیہ“ھذا ظاھر الروایة عن الإمام، نھایة، وھو الصحیح، بدائع ومحیط وینابیع، وھو المختار، غیاثیة، واختارہ الإمام المحبوبي وعول علیہ النسفي وصدر الشریعة، تصحیح قاسم، واختارہ أصحاب المتون وارتضاہ الشارحون، فقول الطحاوي: ”وبقولھما نأخذ“ لا یدل علی أنہ المذھب، وما فی الفیض من ”أنہ یفتی بقولھما فی العصر والعشاء“ مسلم فی العشاء فقط علی ما فیہ وتمامہ فی البحر۔ …۔ قولہ: ”وھو نص فی الباب“ فیہ أن الأدلة تکافأت ولم یظھر ضعف دلیل الإمام؛ بل أدلتہ قویة أیضا کما یعلم من مراجعة المطولات وشرح المنیہ، وقد قال فی البحر: لا یعدل عن قول الإمام إلی قولھما أو قول أحدھما إلا لضرورة من ضعف دلیل أو تعامل بخلافہ کالعة وإن صرح المشایخ بأن الفتوی علی قولھما کما ھنا۔ قولہ: ”وعلیہ عمل الناس الیوم“: أي: في کثیر من البلاد، والأحسن ما فی السراج عن شیخ الإسلام أن الاحتیاط أن لا یوٴخر الظہر إلی المثل، وأن لا یصلي العصر حتی یبلغ المثلین لیکون موٴدیا للصلاتین في وقتھما بالإجماع، وانظر ھل إذا لزم من تأخیرہ العصر إلی المثلین فوت الجماعة یکون الأولی التأخیر أم لا؟ والظاھر الأول بل یلزم لمن اعتقد رجحان قول الإمام تأمل، ثم رأیت في آخر شرح المنیة: ناقلاً عن بعض الفتاوی أنہ لو کان إمام محلتہ یصلی العشاء قبل غیاب الشفق الأبیض فالأفضل أن یصلیھا وحدہ بعد البیاض (رد المحتار) ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند