• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 166393

    عنوان: قضاء نماز كی نیت كب كی جانی چاہیے؟

    سوال: ایک شخص کے ذمے بہت سی قضا نمازیں ہیں، وہ کچھ مدت کے لیے مثلاً گزشتہ فوت شدہ فجر کی نمازوں کی ادائیگی کی نیت کر کے اپنی ہر دو رکعت کی نماز میں اپنے ذمے آخری فوت شدہ نمائش کی نیت کر لیتا ہے ، پھر کچھ دن ظہر کے لیے ایسا کر لیتا ہے ، ایسی شکل میں نیت کے استحضار کا ابتدائے صلاة کے ساتھ اقتران کی کس قدر پابندی ضروری ہے ؟ کیونکہ لمبی میعاد تک یہ عمل کرتے ہوئے بسا اوقات مثلاً نماز کے لیے وضو کرتے ہوئے تو خیال ہوتا ہے کہ دو رکعت قضا پڑھنی ہے لیکن کھڑے ہوتے وقت اس کا دھیان نہیں رہتا، پھر ثناء پڑھتے ہوئے شک ہوتا ہے کہ اب اس دو رکعت کو قضاء شمار کریں یا نفل ہی بنا لیں؟

    جواب نمبر: 166393

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 208-295/M=3/1440

    بہتر یہ ہے کہ نماز کی نیت تکبیر تحریمہ سے قبل متصل ہو، یعنی جہاں تک ہو سکے کوشش یہ کی جائے کہ نماز شروع کرنے سے پہلے نیت کرلی جائے کہ کونسی نماز پڑھنے جا رہے ہیں اس کا استحضار کرلیا جائے اگر بالکل تحریمہ سے پہلے نیت نہیں کرسکے لیکن گھر سے چلتے وقت یا وضو بناتے وقت نیت فلاں نماز کی تھی، اور درمیان میں کوئی منافی صلاة عمل (کھانا، پینا وغیرہ) نہیں پایا گیا تو وہی نیت کافی ہے۔ اگر وضو کرتے ہوئے قضاء نماز پڑھنے کی نیت تھی لیکن تکبیر تحریمہ کے وقت دھیان نہیں رہا تب بھی وہ قضا نماز درست ہو جائے گی۔ وأجمع أصحابنا علی أن الأفضل أن تکون النیة مقارنة للشروع ․․․ والنیة المقدمة علی التکبیر کالقائمة عند التکبیر إذا لم یوجد ما یقطعہ، وہو عمل لایلیق بالصلاة ․․․․․ حتی لو نوی ثم توضأ ومشی إلی المسجد ، فکبر ولم یحضرہ النیة جاز ․․․ (ہندیہ: ۱/۱۲۴) ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند