• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 164436

    عنوان: فرض کی آخری دو رکعت میں خاموش رہنا كیسا ہے؟

    سوال: فرض کی آخری دو رکعت میں اگر کچھ نہ پڑھاجائے اور خاموش ریا جائے تو کیا یہ درست ہے ؟حدیث کے حوالہ کے ساتھ جواب کی ضرورت ہے ۔شکریہ

    جواب نمبر: 164436

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:1487-1334/L=1/1440

    فر ض کی آخری دو رکعتوں میں مسنون طریقہ یہ ہے کہ سورہٴ فاتحہ کی تلاوت کی جائے لیکن اگر کوئی آدمی خاموش کھڑا رہا اور اس حال میں رکوع میں چلا گیا تو اس کی نماز بھی درست ہے، وعلی وابن مسعود - رضی اللہ عنہما - کانا یقولان: المصلی بالخیار فی الأخریین، إن شاء قرأ وإن شاء سکت وإن شاء سبح، وسأل رجل عن عائشة - رضی اللہ عنہا - عن قرائة الفاتحة فی الأخریین فقالت: لیکن علی وجہ الثناء ولم یرو عن غیرہم خلاف ذلک، فیکون ذلک إجماعا؛ ولأن القراء ة فی الأخریین ذکر یخافت بہا علی کل حال فلا تکون فرضا، کثناء الافتتاح․ (بدائع الصنائع: ۱/۲۹۵، ط: زکریا دیوبند) وہو مخیر بین قراء ة الفاتحة وتسبیح ثلاثا وسکوت قدرہا (درمختار مع رد المحتار: ۲/۲۸، ط: زکریا دیوبند) حدثنا شریک عن أبي إسحاق عن علی وعبد اللہ، أنہما قالا: اقرأ فی الأولیین، وسبح فی الأخریین (مصنف ابن أبی شیبة: ۳/ ۲۶۶، ط: بیروت) قولہ: بأم الکتاب: قال الکرماني فیہ حجة علی من قال أن الرکعتین الأخیرین إن شاء لم یقرأ الفاتحة فیما قلت قولہ وفي الأخیرین بأم الکتاب لا یدل علی الوجوب والدلیل علی ذلک ما رواہ أبي المنذور عن علی أنہ قال إفرأ في الأولیین وسبح في الأخریین وکفی بہ قدوة (حاشیة بخاری شریف: ۱/۱۰۷، ط: اتحاد دیوبند)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند