• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 164324

    عنوان: ویل للمصلین پر امام کا رکوع کرنا

    سوال: کل مغرب کی دوسری رکعت میں امام صاحب نے "فویل للمصلین" پر رکوع کر دیا۔ نماز کے بعد ایک مولانا صاحب نے کہا کہ نماز باعتبار ترجمہ فاسد ہو گئی۔ فقہ کا قاعدہ ہے کہ اگر نماز میں قرآت میں وقف کی وجہ سے یا الفاظ میں تبدیلی کی وجہ سے ایسی غلطی ہو جائے جس کا اعتقاد نا جائز ہو تو اس کواس رکعت میں لوٹانا ضروری ہے ورنہ نماز فاسد ہو جائیے گی۔ اور امام صاحب نے فویل للمصلین پر رکوع کر دیا ۔ مطلب نماز پڑھنے والوں کے لئے ھلاکت ہے ۔ حالانکہ نماز پڑھنے والوں کے لئے کامیابی ہے ۔ اگے کی آیت پڑھ کر رکوع کرتے تو نماز ہو جاتی لہذا نماز دہرانی چاہئے ۔ کیا ان مولانا صاحب کی بات درست ہے ؟

    جواب نمبر: 164324

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:1422-183T/SD=12/1439

     صورت مسئولہ میں نماز ہوگئی ، یہ اگرچہ ایسی غلطی ہے جس سے معنی میں تبدیلی ہوجاتی ہے ؛ لیکن فقہائے کرام نے وقف وغیرہ کے وجہ سے معنی میں تبدیلی کے باوجود نماز کی صحت کا حکم لگایا ہے ۔

    قال الحصکفی:أَوْ بِوَقْفٍ وَابْتِدَاءٍ لَمْ تَفْسُدْ وَإِنَّ غُیِّرَ الْمَعْنَی بِہِ یُفْتَی بَزَّازِیَّةٌ۔قال ابن عابدین : (قَوْلُہُ أَوْ بِوَقْفٍ وَابْتِدَاءٍ) قَالَ فِی الْبَزَّازِیَّةِ: الِابْتِدَاءُ إنْ کَانَ لَا یُغَیِّرُ الْمَعْنَی تَغْیِیرًا فَاحِشًا لَا یُفْسِدُ، نَحْوُ الْوَقْفِ عَلَی الشَّرْطِ قَبْلَ الْجَزَاءِ وَالِابْتِدَاءُ بِالْجَزَاءِ، وَکَذَا بَیْنَ الصِّفَةِ وَالْمَوْصُوفِ؛ وَإِنْ غَیَّرَ الْمَعْنَی نَحْوُ - {شَہِدَ اللَّہُ أَنَّہُ لا إِلَہَ} [آل عمران:)ثُمَّ ابْتَدَأَ - بِإِلَّا ہُوَ - لَا یُفْسِدُ عِنْدَ عَامَّةِ الْمَشَایِخِ لِأَنَّ الْعَوَّامَ لَا یُمَیِّزُونَ؛ وَلَوْ وَقَفَ عَلَی - {وَقَالَتِ الْیَہُودُ} [التوبة)ثُمَّ ابْتَدَأَ بِمَا بَعْدَہُ لَا تَفْسُدُ بِالْإِجْمَاعِ. اہ.وَفِی شَرْحِ الْمُنْیَةِ: وَالصَّحِیحُ عَدَمُ الْفَسَادِ فِی ذَلِکَ کُلِّہِ۔ (الدر المختار مع رد المحتار :۶۳۲/۱)الوجہ الثانی: أن یتغیر بہ المعنی تغیراً فاحشاً بأن قرأ {شَہِدَ اللَّہُ أَنَّہُ لا إِلَہَ} (آل عمران)ووقف ثم قرأ {إِلاَّ ہُوَ} (آل عمران)وقرأ {وَقَالَتِ النَّصَرَی} (البقرة) ووقف ثم قال: {الْمَسِیحُ ابْنُ مَرْیَمَ} (المائدة) ... وفی ہذا الوجہ لا تفسد صلاتہ عند علمائنا، وعند بعض العلماء تفسد صلاتہ، والفتوی علی عدم الفساد علی کل حال؛ لأن فی مراعاة الوقف والوصل والابتداء، إیقاع الناس فی الحرج، خصوصاً فی حق العوام، والحرج مدفوع شرعاً.(المحیط البرھانی: ۳۳۰/۱، الفصل الثامن فی الوقف) مزیدتفصیل کے لیے دیکھیے : امداد الفتاوی: ۶۱۱/۱) ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند