• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 164022

    عنوان: سفر میں ظہر اور عصر مغرب اور عشاء کو اکٹھا کرنا

    سوال: میرے چند دوست اور مریدکے مرکز کے ایک صاحب علم عالم کا یہ کہنا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں ظہر اور عصر / مغرب اور عشاء کو اکٹھا کر کے پڑھ لیتے تھے ۔ یعنی کہ ظہر نماز کا وقت ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت قصر نماز ظہر بھی ادا کی اور ساتھ ہی عصر کی قصر نماز بھی پڑھ لی یا ظہر کے وقت نماز نہ پڑھی اور عصر کے وقت قصر نماز ظہر ادا کی اور اور عصر کی قصر نماز بھی پڑھ لی۔ اسی طرح مغرب اور عشاء کا معاملہ ہے - ان کا کہنا ہے کہ سعودیہ میں بھی ایسے ہوتا ہے اور امام کعبہ نے اس کی تائید بھی کی ہے ۔ اور جو وہ حوالہ دیتے ہیں وہ بھی ساتھ منسلک ہیں۔ ساتھ مرید کے والے عالم کا یہ بھی کہنا میں اس کی وہ پوری ذمہ داری لیتے ہیں اگر نعوذباللہ قیامت کے دن اس عمل پر پکڑ ہوئی تو وہ اسکے ذمہ دار ہوں گے ۔ براہ کرم، اس معاملہ میں رہنمائی فرمائیں اور ساتھ حوالہ جات بھی دیں اور ایسے قران و حدیث کی کتب کا بھی بتائیں جس کا میں خود مطالعہ کر سکوں اور وہ کتب مجھ جیسے کم علم آدمی کو سمجھ بھی آجائیں۔

    جواب نمبر: 164022

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:1223-162T/B=12/1439

    جمع بین الصلاتین کی دو قسمیں ہیں: (۱) جمع حقیقی: یعنی دو نمازوں کو ایک وقت میں ادا کرنا۔ (۲) جمعِ صوری: یعنی ایک نماز کو موٴخر کرکے اس کے آخری وقت میں ادا کرنا اور دوسری نماز کو اس کے شروع وقت میں ادا کرنا تو دونوں نمازیں اپنے اپنے وقت میں ہیں؛ لیکن صورتاً دونوں کے درمیان جمع پایا جارہا ہے کہ دونوں ایک ساتھ ادا کی جاتی ہیں۔ احناف کے نزدیک قرآن وحدیث کی روشنی میں جمع حقیقی صرف عرفات اور مزدلفہ میں جائز ہے وہ بھی صرف دو نمازوں ظہر وعصر، اور مغرب وعشاء میں اور صرف حاجیوں کے لیے (شرائط کے ساتھ) ان کے علاوہ کسی بھی موقع پر جمع بین الصلاتین حقیقی جائز نہیں جیسا کہ حدیث میں حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یصلي الصلاة لوقتہا إلا بجمع وعرفات (رواہ النسائي وإسنادہ صحیح (آثار السنن: ۲/۷۲بحوالہ إعلاء السنن ۲/ ۹۴، اشرفیہ دیوبند) اور قرآن میں بھی نماز کو ان کے اوقات کے اندر ادا کرنے کی بہت تاکید آئی ہے، قال اللہ تبارک وتعالیٰ: إِنَّ الصَّلَاةَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ کِتَابًا مَوْقُوتًا بیشک نماز موٴمنین پر فرض ہے اپنے مقررہ وقتوں میں، اسی طرح دوسری جگہ ارشاد ہے: وَأَقِمِ الصَّلَاةَ طَرَفَیِ النَّہَارِ وَزُلَفًا مِنَ اللَّیْلِ اور ایک تیسری آیت میں ہے: أَقِمِ الصَّلَاةَ لِدُلُوکِ الشَّمْسِ إِلَی غَسَقِ اللَّیْلِ وَقُرْآنَ الْفَجْرِ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ کَانَ مَشْہُودًا ان آیات میں نماز کو ان کے اوقات میں پڑھنے کا حکم ہے۔

    البتہ ضرورت کے موقع (سفر بارش وغیرہ) جمعِ صوری کی اجازت ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں ظہر کو موٴخر کرتے تھے (آخری وقت میں ادا کرتے تھے) اور عصرکو مقدم کرتے (شروع وقت میں ادا کرتے تھے) اور مغرب کو موٴخر کرتے اور عشاء کو مقدم کرتے (إعلاء السنن: ۲/۹۵، اشرفیہ دیوبند) اس طرح کی اور بھی احادیث ہیں جن میں جمعِ صوری کی اجازت ہے، اور وہ تمام احادیث جن میں دو نمازوں کو جمع کرنے کی بات ہے وہ جمعِ صوری پر محمول ہیں، یعنی (وہاں جمعِ صوری مراد ہے) وفي الدر المختار: ولا جمع بین فرضین في وقت بعذر سفر ومطر خلافا للشافعي وما رواہ محخمول علی الجمع الصوري فعلاً لا وقتاً فإن جمع فسد لو قدم الفرض علی وقتہ وحرم لو عکس أي أخرہ عنہ وإن صحّ إلا لحاج بعرفة ومزدلفة (الدر المختار: ۲/ ۴۶، زکریا) لہٰذا اگر آپ اہل سنت والجماعت حنفی ہیں تو آپ پر امام ا بوحنیفہ کی تقلید لازم ہے اور مذکورہ تفصیل کے مطابق عمل کرنا ضروری ہے، رہی بات سعودیہ اور امام کعبہ کی تائید کی تو چوں کہ وہاں حنابلہ کی کثرت ہے اور امام احمد ابن حنبل کے نزدیک سفر وغیرہ میں دو نمازوں کو ایک وقت میں پڑھنے کی گنجائش ہے۔ اگر آپ عربی زبان سے واقف ہیں تو ا علاء السنن (ج۲اشرفیہ) اور معارف السنن کا مطالعہ کرسکتے ہیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند