• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 163011

    عنوان: نماز میں رفع یدین کیوں منع ہے؟

    سوال: رفع یدین کیوں نہیں کرنا چاہئے؟ کچھ صحیح اور قوی حدیث کی دلیل سے بتائیں۔

    جواب نمبر: 163011

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 1005-1074/SN=1/1440

    عن علقمة قال: قال عبد اللہ بن مسعود: ألا أصلي بکم صلاة رسول اللہ - صلی اللہ علیہ وسلم - ؟ فصلی فلم یرفع یدیہ إلا فی أوّل مرّة (ترمذی، رقم: ۲۳۸) وعن البراء بن عازب قال: کان النبي - صلی اللہ علیہ وسلم - إذا کبر لافتتاح الصلاة رفع یدیہ حتی یکون إبہاماہ قریباً من شحمتی أذنیہ ثم لایعود (طحاوی، رقم: ۸۴۳) عن عبد اللہ بن عمر قال: رأیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم إذا افتتح الصلاة رفع یدیہ حتی یحاذي بہا، وقال بعضہم: حذو منکبیہ، وإذا أراد أن یرکع وبعد ما یرفع رأسہ من الرکوع لایرفعہما (مستخرج أبي عوانة، رقم: ۱۲۴۰) یہ اور ان کے علاوہ دیگر بہت سی احادیث و آثار نیز بیشمار صحابہٴ کرام ، تابعین اور تبع تابعین وغیرہ کے عمل کی روشنی میں ائمہ مجتہدین میں سے امام ابوحنیفہ (رحمہ اللہ) اور امام مالک (رحمہ اللہ) نے یہ قول اختیار کیا ہے کہ صرف تکبیر تحریمہ کے وقت رفع یدین سنت ہے، اس کے علاوہ نماز میں کسی اور جگہ رفع یدین سنت نہیں ہے؛ بلکہ منع ہے۔ رفع یدین سے متعلق ائمہ کے آراء اوران کے دلائل نیز ترک رفع کے قائلین کی وجو ہ ترجیح وغیرہ پر مشتمل دارالعلوم دیوبند سے شائع شدہ ایک تفصیلی فتوی ”چند عصری مسائل“ جلد اول میں چھپا ہوا ہے، اس کا مطالعہ بہت مفید ہوگا ان شاء اللہ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند