• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 162102

    عنوان: سدل کی تعریف اور اس کی حقیقت اور عربوں کی طرح رومال ڈالنا سدل ہے یا نہیں؟ اور صحیح طریقہ عقال کیسے ڈالی جائے جس میں سدل نہ ہو؟

    سوال: میرا سوال یہ ہے کہ میں ابوظہبی میں پرائیویٹ مسجد میں امام ہوں، میں دوران نماز سرپر جالی والی ٹوپی پہن کر اوپر رومال رکھ لیتا ہوں باندھتا نہیں ہوں، یعنی قیام میں رومال کے دونوں کنارے آگے لٹکے ہوتے ہیں، مگر رکوع میں لٹکے نہیں ہوتے ، ہاں کبھی کبھی یعنی شاذونادر ایک کنارا لٹک جاتا ہے وہ بھی قصداً نہیں بہت کوشش کرتا ہوں کہ یہ شاذونادر کی بھی نوبت نہ آئے کیا اوپر بیان کردہ صورت سدل کے حکم میں آئے گی یا نہیں اگر اوپر کردہ صورت سدل کے حکم میں ہے تو پھر میں جمعہ کے دن سر پر ٹوپی اس کے اوپر رومال رومال کی اوپر گال یعنی جو اھل عرب کا طریقہ ہے وہ رکھتا ہوں پھر اس کا طریقہ کار کیا ہوگا شریعت مطہرہ کی روشنی وضاحت فرما کر عنداللہ ماجور ہوں۔

    جواب نمبر: 162102

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:1033-907/N=10/1439

    (۱): رومال سر پر ڈال کر اس کے دونوں کنارے دائیں بائیں لٹکانا سدل میں داخل ہے اور مکروہ ہے؛ البتہ اگر رومال کا کوئی ایک کونہ لپیٹ کر پشت کی طرف ڈال دیا جائے تو سدل نہیں رہے گا۔

    و-کرہ- سدل تحریماً للنھي أي: إرسالہ بلا لبس معتاد …کشد ومندیل یرسلہ من کتفیہ فلو من أحدھما لم یکرہ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاة، باب ما یفسد الصلاة وما یکرہ فیھا، ۲: ۴۰۵، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، قولہ: ”أي: إرسالہ بلا لبس معتاد“:…قال فی البحر:…فعلی ھذا تکرہ فی الطیلسان الذي یجعل علی الرأس، وقد صرح بہ في شرح الوقایة اھ إذا لم یدرہ علی عنقہ وإلا فلا سدل (رد المحتار)۔

    (۲): آپ عام اہل عرب کے طریقہ پر رومال ڈال عقال(گال) نہ باندھیں؛ بلکہ رومال کا کوئی ایک کونہ لپیٹ کر پشت کی طرف ڈال کر عقال باندھیں، اس صورت میں سدل نہیں ہوگا۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند