• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 160224

    عنوان: ایک مسجد میں امام صاحب کے علاوہ باقی منزلوں پر بھی تراویح کی جماعت جائز ہے یا ناجائز؟

    سوال: مفتی صاحب کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ امام صاحب کے علاوہ باقی بچی منزلوں پر دوسرے باشرع حفاظ کا تراویح کی جماعت کرنا جائز ہے یا ناجائز؟ دوسرا یہ کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالہ عنہ نے تو مسجد نبوی میں لوگوں کو جب الگ الگ امام کے پیچھے تراویح پڑھتے دیکھا تھا تو سب کو ایک امام صاحب کے پیچھے کر دیا تھا تو کیا آج عمل سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی مخالفت نہیں ہے ۔ اور حضور صلی علیہ وسلم نے تو فرمایاتھا " علیکم بسنتی وسنة الخلفاء الراشدین " تو کیاہم اس عمل سے حضور صلی علیہ وسلم کی مخالفت نہیں کر رہے ۔

    جواب نمبر: 160224

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:819-92T/sd=7/1439

    بہتر اور افضل یہی ہے کہ ایک مسجد میں تراویح کی ایک جماعت کی جائے ؛ لیکن بسا اوقات حفاظ کی تعداد زیادہ ہوتی ہے یا بعض مصلی ضرورت کی بناء پر کم ایام میں قرآن پاک مکمل سننا چاہتے ہیں؛ اس لیے عذر کی بناء پر بعض مفتیان کرام نے ایک مسجد میں تراویح کی دو جماعت کی گنجائش دی ہے ،بشرطیکہ فرض نماز سب ایک جماعت سے اداء کریں اور تراویح کی دونوں جماعتوں میں آواز کا ٹکراوٴ نہ ہو،اس کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نظم کے خلاف سمجھنا صحیح نہیں ہے ،تراویح کی جماعت سنت علی الکفایہ ہے ، بعض صحابہ کرام سے مسجد کی جماعت سے الگ گھر میں بھی تراویح پڑھنا ثابت ہے ، اس سے معلوم ہوا کہ تراویح میں مسجد کی جماعت اور فرض نمازوں کی جماعت کے حکم میں فرق ہے۔ وقال الصدر الشہید الجماعة سنة کفایة فیہا حتی لو أقامہا البعض فی المسجد بجماعة وباقی أہل المحلة منفردا فی بیتہ لا یکون تارکا للسنة لأنہ یروی عن أفراد الصحابة للتخلف․ وقال فی المبسوط لو صلی إنسان فی بیتہ لا یأثم فقد فعلہ ابن عمر وعروة وسالم والقاسم وإبراہیم ونافع فدل فعل ہوٴلاء أن الجماعة فی المسجد سنة علی سبیل الکفایة إذ لا یظن بابن عمر ومن تبعہ ترک السنة۔ ( مراقی الفلاح: ۱۵۷/۱، فصل فی التراویح ) 


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند