• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 160099

    عنوان: ایک بیوی ، سات بیٹے اور چار بیٹیوں کے درمیان وراثت کی تقسیم؟

    سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین مسئلہ ذیل کے بارے میں؟ جناب محمد طاہر صاحب کی دو بیویاں تھیں، پہلی بیوی سے تین لڑکیاں (جس میں سے ایک فوت شدہ) اور ایک لڑکا، دوسری بیوی سے دو لڑکی اور چھ لڑکے ، اور واضح رہے کہ جناب طاہر صاحب نے اپنی زندگی ہی میں اپنی پہلی بیوی کو طلاق دیکر اس سے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔ جناب محمد طاہر صاحب کے انتقال کے بعد انکی دوسری بیوی اور بچوں نے مل کر جناب محمد طاہر صاحب کی ملکیت والی ۱۵ دھور زمین فروخت کردی۔ صورت مسئلہ میں اصل یہ معلوم کرنا ہے کہ بیچی ہوء مذکورہ زمین میں پہلی بیوی اور ان کے بچوں کا شرعی اعتبار سے کوء حق بنتا ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو اسکی تفصیل کیا ہے ؟ شریعت کی روشنی میں جواب مرحمت فرمائیں۔

    جواب نمبر: 160099

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:821-147T/sn=8/1439

    محمد طاہر مرحوم نے جو کچھ بھی ترکہ زمین جائداد وغیرہ چھوڑا ہے اس میں مرحوم کی بیوی اور تمام بیٹے اور بیٹیوں (خواہ پہلی بیوی کے بطن سے ہوں یا دوسری بیوی کے بطن سے) کا حق ہے، دوسری بیوی اور ان کی اولاد کے لیے جائز نہیں ہے کہ پہلی بیوی کی اولاد کی رضامندی کے بغیر کوئی جائداد فروخت کریں، مرحوم طاہر کی وفات کے وقت اگر ان کے والد اور والدہ میں سے کوئی باحیات نہ رہا ہو نیز جس بیٹی کا انتقال ہوا ہے اس کے انتقال کا واقعہ مرحوم کی زندگی ہی میں پیش آیا ہو تو صورتِ مسئولہ میں مرحوم محمد طاہر صاحب نے جو کچھ بھی ترکہ: زمین، مکان پیسہ، زیورات اور دیگر اثاثہ چھوڑا ہے، سب کے بعد ادائے حقوقِ مقدمہ علی الارث کل ۱۴۴/ حصے کیے جائیں جن میں سے ۱۸/ حصے مرحوم کی دوسری بیوی کو ۱۴-۱۴/ حصے مرحوم کے ساتھوں بیٹو میں سے ہرایک کو اور ۷-۷/ حصے مرحوم کی چاروں بیٹیوں میں سے ہرایک کو ملیں گے، مرحوم کی پہلی بیوی جنھیں مرحوم نے طلاق دیدی تھی وہ مرحوم کی جائداد میں حق دار نہیں ہیں، انہیں کچھ نہ ملے گا۔ نقشہ تخریج حسب ذیل ہے:

    زوجہ = ۱۸

    ابن = ۱۴

    ابن = ۱۴

    ابن = ۱۴

    ابن = ۱۴

    ابن = ۱۴

    ابن = ۱۴

    ابن = ۱۴

    بنت = ۷

    بنت = ۷

    بنت = ۷

    بنت = ۷


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند