عبادات >> صلاة (نماز)
سوال نمبر: 160069
جواب نمبر: 160069
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:752-713/M=7/1439
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک ابتداءً غیر عربی میں نماز شروع کرنے (تکبیر تحریمہ کہنے) اور فارسی میں قرأت کی جازت تھی جب کہ صاحبین رحمہما اللہ کے نزدیک عربی پر غیر قادر شخص (عاجز) کے لیے تو دوسری زبان میں نماز شروع کرنے کی گنجائش ہے لیکن مطلقاً اجازت نہیں ہے، اور قرأت عربی کے علاوہ میں جائز نہیں اور اسی اختلاف پر خطبہ جمعہ وعیدین ودیگر اذکار کا معاملہ مبنی ہے، لیکن بعد میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے صاحبین رحمہما اللہ کے قول کی طرف رجوع کرلیا تھا، پس اب مختار قول کے مطابق عربی کے علاوہ دوسری زبان میں نہ قرأت جائز ہے اور نہ خطبہ جمعہ درست ہے، صحابہٴ کرام نے مختلف عجمی ملکوں کو فتح کیا اور وہاں گئے لیکن کسی صحابی سے غیرعربی میں خطبہ دینا ثابت نہیں پس مسنون ومتوارث یہی ہے کہ خطبہ عربی زبان میں ہو، وصح شروعہ أیضا مع کراہة التحریم بتسبیح وتہلیل ․․․ کما صح لو شرع بغیر عربیة․․․ وشرطا عجزہ، وعلی ہذا الخلاف الخطبة وجمیع أذکار الصلاة، وأما ما ذکرہ بقولہ أو آمن أو لبی أو سلم أو سمی عند ذبح أو شہد عند حاکم أو رد سلاما ولم أر لو شمت عاطسا أو قرأ بہا عاجزا فجائز إجماعا، قید القراء ة بالعجز لأن الأصح رجوعہ إلی قولہما وعلیہ الفتوی․ (درمختار زکریا: ۲/ ۱۸۲تا ۱۸۴)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند