عبادات >> صلاة (نماز)
سوال نمبر: 159764
جواب نمبر: 159764
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:749-631/N=7/1439
الفاظ کے تلفظ کی مطلق کمی یا معنی کی مطلق تبدیلی سے نماز فاسد نہیں ہوتی، اگر قرآن کی تلاوت میں اس طرح کی غلطی ہوجائے کہ معنی میں تغیر فاحش ہوجائے، یعنی: ایسے معنی پیدا ہوجائیں، جن کا اعتقاد کفر ہوتا ہے اورنماز میں اس غلطی کی اصلاح بھی نہ کی جائے تو نماز فاسد ہوتی ہے، باقی ہر مسلمان کو چاہیے کہ صحت وتجوید کیساتھ قرآن پاک کی تلاوت کا اہتمام کرے۔ اور اگر کسی کی تجوید یا ادائیگی صحیح نہ ہو تو وہ کسی قاری صحت وتجوید کی مشق کرے۔
قال في شرح المنیة الکبیر:القاعدة عند المتقدمین أن ما غیرہ تغیراً یکون اعتقادہ کفراً تفسد في جمیع ذلک سواء کان فی القرآن أو لم یکن إلا ما کان من تبدیل الجمل مفصولاً بوقف تام ثم قال بعد ذلک: فالأولی الأخذ بقول المتقدمین (إمداد المفتین، ص ۳۰۳)، وإن غیر المعنی تغیراً فاحشاً فإن قرأ ” وعصی آدم ربہ فغوی “ بنصب میم ” اٰدم “ ورفع باء ” ربہ “……… وما أشبہ ذلک لو تعمد بہ یکفر إذا قرأ خطأً فسدت صلاتہ الخ (الفتاوی الخانیة علی ھامش الھندیة، ۱: ۱۶۸، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)، ومنھا ذکر کلمة مکان کلمة علی وجہ البدل إن کانت الکلمة التي قرأھا مکان کلمةیقرب معناھا وھي فی القرآن لا تفسد صلاتہ نحو إن قرأ مکان العلیم الحکیم …………، وإن کان فی القرآن،ولکن لا تتقاربان فی المعنی نحو إن قرأ وعداً علینا، إنا کنا غافلین مکان فاعلین ونحوہ مما لو اعتقدہ یکفر تفسد عند عامة مشایخنا،وھو الصحیح من مذھب أبي یوسف رحمہ اللہ تعالی ھکذا فی الخلاصة (الفتاوی الھندیة، ۱: ۸۰،، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)، وفی المضمرات: قرأ فی الصلاة بخطإ فاحش ثم أعاد وقرأ صحیحاً فصلاتہ جائزة (حاشیة الطحطاوي علی الدر المختار،۱: ۲۶۷ط: مکتبة الاتحاد دیوبند)، ذکر فی الفوائد: لو قرأ فی الصلاة بخطإفاحش ثم رجع وقرأ صحیحاً ، قال: عندي صلاتہ جائزة (الفتاوی الھندیة، ۱: ۸۲، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)، نیز امداد الفتاوی اور اس کا حاشیہ (۱: ۲۵۱- ۲۵۷، سوال: ۲۲۵، مطبوعہ :مکتبہ زکریا دیوبند)اور فتاوی رحیمیہ (۵:۱ ۹، جواب سوال: ۶۹، مطبوعہ: دار الاشاعت کراچی) وغیرہ دیکھیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند