• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 159233

    عنوان: نماز میں دو سجدوں کے درمیان کی دعا

    سوال: کیا امام ابو حنیفہ کے مطابق نماز میں دو سجدوں کے درمیان خاموش رہنا چاہئے ؟اورکیا اس کا حوالہ کتاب جامع صغیر میں ہے ؟

    جواب نمبر: 159233

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:647-121T/SD=8/1439

    قومہ اور جلسہ میں طویل ذکر اور دعا کرنا منفرد کے لیے جائز ہے؛ البتہ امام کو قومہ اور جلسہ میں زائد ذکر ودعا نہیں کرنا چاہیے؛ کیوں کہ اس کی وجہ سے بعض مقتدیوں کو گرانی ہوسکتی ہے اور جامع صغیر میں ہمیں اس کی صراحت نہیں مل سکی؛ البتہ علامہ شامی رحمہ اللہ نے امام ابویوسف رحمہ اللہ کے حوالے سے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا قول ذکر کیا ہے کہ امام ابویوسف رحمہ اللہ نے امام صاحب سے پوچھا کہ رکوع اور سجدے سے اٹھنے کے بعد کیا اللہم اغفر لی دعا پڑھنی چاہیے، امام صاحب نے فرمایا کہ (رکوع سے اٹھنے کے بعد) ربنا لک الحمد کہنا چاہیے۔

    (ولیس بینہما ذکر مسنون، وکذا) لیس (بعد رفعہ من الرکوع) دعاء، وکذا لا یأتی فی رکوعہ وسجودہ بغیر التسبیح (علی المذہب) وما ورد محمول علی النفل․ قال ابن عابدین : قال أبو یوسف: سألت الإمام أیقول الرجل إذا رفع رأسہ من الرکوع والسجود اللہم اغفر لی؟ قال: یقول ربنا لک الحمد وسکت، ولقد أحسن فی الجواب إذ لم ینہ عن الاستغفار نہر وغیرہ․ أقول: بل فیہ إشارة إلی أنہ غیر مکروہ إذ لو کان مکروہا لنہی عنہ کما ینہی عن القرائة فی الرکوع والسجود وعدم کونہ مسنونا لا ینافی الجواز کالتسمیة بین الفاتحة والسورة، بل ینبغی أن یندب الدعاء بالمغفرة بین السجدتین خروجا من خلاف الإمام أحمد لإبطالہ الصلاة بترکہ عامدا ولم أر من صرح بذلک عندنا، لکن صرحوا باستحباب مراعاہ الخلاف، واللہ أعلم ․․․ علی أنہ إن ثبت فی المکتوبة فلیکن فی حالة الانفراد، أو الجماعة والمأمومون محصورون لا یتثقلون بذلک کما نص علیہ الشافعیة، ولا ضرر فی التزامہ وإن لم یصرح بہ مشایخنا فإن القواعد الشرعیة لا تنبو عنہ، کیف والصلاة والتسبیح والتکبیر والقرائة کما ثبت فی السنة. اہ. (شامي: ۲/۲۱۳زکریا)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند